Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 30
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا
وَقَالَ : اور کہے گا الرَّسُوْلُ : رسول يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک قَوْمِي : میری قوم اتَّخَذُوْا : ٹھہرا لیا انہوں نے ھٰذَا الْقُرْاٰنَ : اس قرآن کو مَهْجُوْرًا : متروک (چھوڑنے کے قابل)
اور رسول ﷺ کہیں گے کہ اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔
لغات القرآن : آیت نمبر 30 تا 34 : (مھجور) چھوڑا ہوا۔ چھوڑا گیا ‘(عدو) دشمن ‘(ھادی) ہدایت دینے والا۔ راستے دکھانے والا ‘(نصیر) مدد کرنیوالا ‘(نزل ) اتارا گیا ‘(جملۃ واحدۃ) ایک ہی مرتبہ ‘(نثبت) ہم مضبوط کریں گے ‘(فئواد) دل ‘ (رتلنا) ہم نے آہستہ پڑھا ‘(احسن) بہترین ‘۔ تشریح : آیت نمبر 30 تا 34 : جب کوئی قوم علم و عمل سے دور اور جہالت سے قریب ہوتی ہے تو ان میں ایک خاص ٹیڑھے پن کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے اور وہ سوائے بےتکی بحثوں ‘ کٹ حجتیوں ‘ ضد ‘ بےفائدہ سوالات اور بےعملی کے کچھ بھی نہیں کرتے۔ ان کو سچائی اور بھلی بات سے نفرت اور ہر جہالت سے خاص دلی لگائوہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہر سچی بات کو لوگوں کی نظروں میں بےقیمت بنا دیا جائے اور ہر جھوٹی بات کو خوبصورت رنگ دے کر لوگوں کی نگاہوں میں با عظمت بنا دیا جائے۔ چنانچہ جب نبی کریم ﷺ نے کفار مکہ کے سامنے قرآن کریم کی سچی اور حقیقی تعلیم کو پہنچانے کی جدوجہد فرمائی تو جہالت میں ڈوبے ہوئے عرب معاشرہ میں ہر ایک کی ایک ہی کوشش رہتی تھی کہ نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ اور قرآن کریم کی سچائیوں کو بےقیمت بنادیا جائے اور اتنے بےت کے اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کردی جائے اور ایسے ایسے سوالات کئے جائیں کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ ان سچائیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ نیگذشتہ آیات میں پڑھ لیا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کو جادو گر ‘ مجنون ‘ کاہن ‘ کسی جادو کے زیر اثر اور بہکا ہوا انسان ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لیے کہتے تھے کہ یہ قرآن کیا ہے ؟ یہ تو ہمارے گذرے ہوئے بزرگوں کے قصے کہانیاں ہیں جن کو اللہ کا کلام کہہ کر پیش کردیا جاتا ہے اور نعوذ باللہ اس کلام کو آپ خود ہی گھڑ کر پیش کردیتے ہیں۔ جو نبی گذرے ہیں ان پر چند روز میں پوری پوری کتابیں نازل کی گئی تھیں یہ کیسا قرآن ہے کہ تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا جارہا ہے۔ اور مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے بےت کے سوالات اور باتوں کا بھر پورجواب دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اے ہمارے پیارے حبیب ﷺ آپ ان کی باتوں کی پروانہ کیجئے کیونکہ یہ لوگ اس سے زیادہ نہ سوچ سکتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں۔ آپ اللہ کے دین کو پہنچانے کی کوشش اور جدوجہد کرتے رہیے۔ اس طرح کی باتیں ہر اس شخص کے ساتھ پیش آتی ہیں جو حق و صداقت کے راستے پر چلتا ہے۔ چنانچہ جب بھی اللہ کے نبی اور رسول آئے ہیں ان پر ان کی قوم کے جاہلوں اور مفاد پرستوں نے اسی طرح کے اعتراضات کئے ہیں اور نبی کی دشمنی میں بہت آگے تک جاپہنچے تھے۔ کفار کے اس اعتراض کا جواب کہ قرآن ایک دم نازل کیوں نہیں کیا گیا فرمایا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا دل قوی اور مضبوط رہے یعنی ہر شخص کے دل میں اس قرآن کی سچائی کو اتار دیا جائے۔ ہر شخص اسکو پڑھ کر ‘ سمجھ کر اور عمل کر کی نہایت مضبوطی اور اخلاص سے اس کو اپنے دل میں جمالے اور یاد کر دلے۔ اگر ذرا بھی غر کیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپ پہل جتنی کتابیں نازل کی گئی ہیں وہ وقتی طور پر ہدایت و رہنمائی کیلئے اتاری گئی تھیں۔ صحابہ کرام ؓ ان کو یاد کرلیا کرتے تھے ‘ ان کو سمجھ کر عمل کر کے اپنے دل کا نور بنا لیا کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کریم آیات کے لاکھوں حافظ پیدا ہوگئے۔ اور جہری نمازوں میں پڑھے جانے سے اور بھی قرآن کریم کا ورد جاری ہوگیا اور قرآن کریم کی ہر آیت عمل میں ڈل کر آسان ہوگئی۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو نبی کریم ﷺ اور قرآنی تعلیمات سے دشمنی کا انداز اختیار کئے ہوئے تھے فرمایا گیا کہ ان کا انجام بہت بھیانک ہے کیونکہ جب قیامت کی دن ایسے لوگوں کو چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں جھونکا جائے گا تو اس وقت ان کو معلوم ہوگا۔ کہ انہوں نے وقتی فائدوں کے پیچھے پڑ کر اپنے لئے آخرت میں کس قدر برا اور گھٹیامقام بنایا ہے۔ لیکن اس وقت شرمندہ ہونے سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں یہ شکوہ کریں گے الہی ! جب میں نے اپنی قوم کو سچائی پر لانا چاہا تو انہوں نے اس کو ماننے اور اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا اور قرآنی تعلیمات کیا نکار نے انہیں حقیقت سے بہت دور کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان کی پروانہ کیجئے کیونکہ اللہ نے ہر نبی کے دشمن پیداکئے ہیں لیکن جن لوگوں نے بھی اسلام دشمنی میں ان شیطانوں کی پیروی کی ہے ان کی آخرت برباد ہو کر رہی۔ ان ہی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عرض کریں گے الہی ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا یعنی میں نے آپ کا کلام ان تک پہنچانے کی جدوجہد کی مگر انہوں نے اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا اور دشمنی میں بہت آگے نکل گئے تھے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ اس سے نہ گھبرائیں کیونکہ اس طرح کے گناہ گاروں نے ہمیشہ دین اسلام اور نبیوں کی اسی طرح دشمنی کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو ہدایت دینا چاہتا ہے اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ وہ سچائی کے راستے پر چلیں اور ہدایت حاصل کریں اللہ تعالیٰ ان کو توفیق ضرور عطا فرماتا ہے۔ اور ان کفار کا یہ کہنا کہ ہم نے اس قرآن کو ایک دم کیوں نازل نہیں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ وحی کا یہ سلسلہ جتنے عرصے بھی قائم رہے گا اس سے آپ کے دل کو قوت و طاقت ملتی رہے گی کیونکہ کفار اسلام دشمنی میں جتنے آگے جاتے رہیں گے اللہ ان کی بروقت گرفت کرسکے گا اور اس طرح آہستہ آہستہ قرآن کے اترنے سے آپ کی ڈھارس بھی بند رہے گی۔ آپ ان کفار کو اعتراضات کرنے دیجئے ہم ان کے ہر اعتراض کا جواب دیتے رہیں گے۔ فرمایا کہ ان لوگوں کو اپنا برا انجام سامنے رکھنا چاہیے۔ جب قیامت کے دن فرشتے ان کفار اور اسلام دشمنوں کو چہروں کے بل گسیٹ گھسیٹ کر جہنم میں ڈالیں گے تو ان کو اندازہ ہوجائے گا کہ انہوں نے اپنے لئے کتنے برے ٹھکانے کا انتخاب کیا تھا اور راستے سے بھٹکنے کا برانجام کتنا بھیانک ہے۔
Top