بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الفرقان - تعارف
تعارف
سورة نمبر 25 کل رکوع 6 آیات 77 الفاظ و کلمات 906 حروف 9319 سورۃ الفرقان مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اس میں اور سورتوں کی طرح توحید و رسالت ‘ قیامت ‘ جزا و سزا ‘ کفر و شرک کی برائی اور مشرکین کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ مقام اور عظمت عطا فرمائی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرح کسی خاص قوم ‘ نسل ‘ یا خطے کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک پوری انسانیت کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا ؛ آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں “ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ؛ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبشر و نذیر بنا کر بھیجا ہے “۔ سورۃ الفرقان میں فرمایا گیا ہے کہ اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ” نذیر اللعالمین “ یعنی تمام جہان والوں کے لیے (برے انجام سے) ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف عرب والوں یا کسی خاص قوم کی طرف رسول اور نبی بنا کر نہیں بھیجا بلکہ قیامت تک ساری انسانیت کی اصلاح اور راہ ہدایت متعین کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغام کو پہنچانے کی کوشش فرماتے تو کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام عظمت کو پہچاننے کے بجائے طرح طرح کے اعتراضات کیا کرتے تھے۔ اللہ تالیٰ نے کفار کے تمام اعتراضات کے جوابات عطا فرمائے ہیں۔ کفارو مشرکین کبھی طنز کرتے ہوئے یہ کہتے کہ اچھا یہ ہیں وہ جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ کبھی کہتے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ہے اور بزاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ کبھی کہتے کہ انکے ساتھ کوئی خزانہ کیوں نہ بھیجا گیا جس سے یہ خوب آرام سے کھاتے پیتے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا ہے یہ انسان ہی ہیں کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں۔ اپنی ضروریات اور تجارت کے لیے بازاروں میں بھی جاتے ہیں جس طرح ان سے پہلے تمام نبی اور رسول انسان ہی تھے اور ان کے ساتھ جو بھی ضروریات تھیں اور بشری تقاضے تھے وہ ان کو پورا کرتے تھے۔ اس سے ان کی شان رسالت و نبوت میں کوئی فرق نہیں پڑتا یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں سمجھانے کے باوجود یہ کفار ایمان نہ لاتے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کے یہ اعتراضات محض عمل سے بھاگنے اور سچائی سے منہ موڑنے کے لیے ہیں۔ اگر ان کو اس بات کا ذرا بھی احساس ہوتا کہ ان کو مرنے کے بعد اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہے تو یہ لوگ کبھی ایسا نہ کرتے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی خاص زمانے اور کسی خاص خطے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری دنیا کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے چناچہ اس سورة میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ساری دنیا کے انسانوں کو برے اعمال کے برے نتائج سے آگاہ کر دیجئے شاید اس طرح وہ حق اور باطل میں فرق کرسکیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ آپان کی طرف نہ دیکھیے بلکہ اللہ کے ان نیک بندوں کی طرف دیکھیے جو ” عبادالرحمن “ ہیں۔ فرمایا کہ اللہ کے یہ نیک بندے وہ ہیں کہ (١) جب وہ زمین پر چلتے ہیں تو نہایت عاجزی اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں غرور اور تکبر کا کوئی انداز ان میں موجود نہیں ہوتا۔ (٢) جب وہ جاہلوں اور نادانوں سے بات کرتے ہیں تو ان سے الجھنے کے بجائے نہایت نرمی اور اخلاق سے کہہ دیتے ہیں کہ ” تم سلام رہو تم پر سلامتی ہو “۔ (٣) ان کی راتیں غفلت اور سستی کے بجائے اللہ کے سامنے سجدے کرنے اور نماز کو قائم کرنے میں گزرتی ہیں۔ (٤) وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں جہنم سے پناہ مانگتے رہتے ہیں اور ہر اس عمل سے دور رہتے ہیں جس سے ان کا رب ان سے ناراض ہوجائے۔ (٥) اللہ کے بندے وہ ہیں جو اپنا مال خرچ کرنے میں اعتدال اور تو ازن کا راستہ اختیار کرتے ہیں نہ تو فضول خرچی میں سب کچھ اڑادیتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ وہ درمیان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ (٦) وہ بد عقیدگی اور برے اعمال سے دور رہتے ہوئے شرک اور بدعات اور کفر کے ہر انداز سے اپنے آپ کو بچا کر توحید خالص پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (٧) وہ انسانی جان کا احترام کرتے ہیں اور قتل ناحق سے دور رہتے ہیں۔ (٨) ناجائز جنسی تعلق (زنا) اور بدکاری اور طرح کے گناہوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھتے ہیں۔ ٭رحمن کے بندے وہ ہیں جھوٹ ‘ فریب ‘ بےہودہ مشغلوں اور ناجائز حرکتوں سے دوررہتے ہیں۔ جب وہ چلتے ہیں تو نہایت عاجزی اور وقار سے چلتے ہیں۔ رحمن کے بندوں کے کئی میں عمل تکبر اور غرور کا کوئی انداز نہیں ہوتا۔ (٩) اللہ کے بندے وہ ہیں کہ جھوٹ ‘ فریب ‘ بےہو دہ مشغلوں اور ناجائز حرکتوں سے بچ کر چلتے ہیں۔ (١٠) اگر وہ کسی غلط اور بےہو وہ جگہ سے گزرتے ہیں تو اس میں الجھنے کے بجائے متانت ‘ سنجیدگی ‘ اور وقار سے گزرجاتے ہیں۔ (١١) جب ان کے سامنے اللہ کا کلام پڑھا جاتا ہے تو وہ اس کو نہایت غورو فکر سے سن کر اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ (٢) وہ اپنے لیے اپنے گھر والوں اور متعلقین کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ ان کو نیکیوں اور پرہیزگاری کے کاموں کے لیے ثابت قدم رکھیے گا۔ اللہ تعالیٰ ان ” عبادالرحمن “ (رحمن کے بندوں) کو اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ ان کو دنیا اور آخرت میں بلند ترین مقامات عطا کئے جائیں گے اور جنہوں نے کفر و شرک کے طریقے اختیار کر رکھے ہیں اور اللہ کے دین اور رسولوں کی عظمت کا انکار کرتے ہیں تو ان کا یہ انکار اور بد عملی قیامت میں وبال جان بن جائے گی۔ اس سے ان کو واسطہ پڑے گا اور ان کو عذاب بھگتنا پڑے گا۔
Top