Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
(اے نبی ﷺ وہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ روح آپ کے رب کا ایک حکم ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 85 یسئلون وہ پوچھتے ہیں۔ سوال کرتے ہیں۔ امر حمک۔ ما اوتیتم تمہیں نہیں دیا گیا۔ قلیل تھوڑا۔ تشریح : آیت نمبر 85 قرآن کریم فلسفہ اور منطق کی کتاب نہیں ہے جس میں ذرا ذرا سی باتوں پر طویل بحثیں کی جائیں بلکہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب زندگی ہے جو انسان کو فلسفیانہ انداز فکر سے ہٹا کر عمل کی راہوں پر گامزن کرتی ہے۔ درحقیقت عمل ہی سے انسان کی زندگی جنت یا جہنم بنتی ہے۔ وہ لوگ جو پوری زندگی صرف اسی میں لگے رہتے ہیں کہ یہ کیا ہے وہ کیا ہے ؟ روح کیا ہے ؟ امر کیا ہے اور عمل پر آمادہ نہیں ہوتے ایسے لوگ فلسفے کے بیمار تو لگتے ہیں لیکن ان کی زندگیاں عمل سے دور رہتی ہیں اور وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے اور وہ سوچتے سوچتے ہی اس دنیا سے گذر جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کر کے اپنی روح کی تابانی کو بڑھاتے رہتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی کامیاب و بامراد رہیں گے۔ ایسی بحثیں اور باتیں جن کا تعلق عمل سے نہ ہو قرآن کریم ان کو کھینچ کر پھر عمل کی طرف موڑ دیتا ہے جیسے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اے نبی ﷺ وہ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں (یعنی وہ کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے) اے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ وہ (چاند) لوگوں کو وقت اور حج کے متعلق بتانے کا ذریعہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے لوگوں نے چاند کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا ہے کبھی کھجور کی شاخ کی طرح باریک ہوجاتا ہے کبھی موٹا اور کبھی غائب ہوجاتا ہے اس میں حج یا ماہ وسال کا سوال نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا رخ عمل کی طرف موڑ کر فرمایا کہ وہ چاند کیسا ہے اس کی منزلیں کیا ہیں یہ ہر شخص کے غور کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ دیکھو کہ اللہ نے چاند کو کس مقصد کے لئے بنایا ہے۔ بنی اسرائیل جن کو اللہ نے اپنی لاتعداد نعمتوں سے نوازا تھا ان کی بےعملی اور بربادی کا سبب یہ بھی تھا کہ وہ بےت کے سوالات اور بحثوں میں الجھے رہتے تھے۔ طرح طرح کے سوالات کرنا، بات بات پر جھگڑنا ان کا مزاج بن چکا تھا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ زندگی بھر سوالات ہی کرتے رہے اور جب عمل کا وقت آتا تو وہ بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام نے آپ کے فیض تربیت سے یہ بات سیکھ لی تھی کہ بےت کے سوالات کرنا پانی زندگی کو برباد کرنا ہے چناچہ تمام امتوں میں سب سے کم سوالات نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام سے نقل کئے گئے ہیں کیونکہ جو کام کرتا ہے عمل کرتا ہے اس کو سوال کرنے کی فرصت کہاں ہوتی ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت یہود و نصاریٰ نے آپ کی مخالفت اور دشمنی کی انتہا کردی تھی اور ہر وقت اس سازش میں لگے رہتے تھے کہ کس طرح اہل ایمان کو بھی بےعملی کی راہوں پر ڈال دیں چناچہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کی روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے میں بھی ان کے ساتھ تھا کچھ شریر قسم کے یہودیوں نے آپ کو روک کر پوچھا کہ اے محمد ! یہ روح کیا چیز ہے ؟ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کی اس کیفیت کو محسوس کیا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے چناچہ آپ نے ان یہودیوں کے سامنے اس آیت کو پڑھا جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نبی ! یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجیے کہ روح امر رب ہے اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے ۔ اس آیت میں ان یہودیوں کی شرارت اور سوال کا رخ کس طرح دوسری طرف پھیر دیا کہ انسان کو بہت کم علم دیا گیا ہے یعنی وہ صرف اسی بات کو سمجھ سکتا ہے جو اس کے احاطہ علم میں آسکتا ہے لیکن جو اس کے بس سے باہر ہے وہ اس کو کیسے سمجھ سکتا ہے دوسرے یہ کہ ان بحثوں میں پڑنے سے کیا فائدہ جس کا تعلق عمل سے نہ ہ۔ اس گتھی کو سلجھانے میں پوری زندگی گذارنے سے بہتر ہے کہ اپنی کم علمی اور جہالت کا اعتراف کر کے حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے۔ میں اس موقع پر اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی علم و تحقیق کا تعلق اس سے ہوتا کہ کسی گتھی کو سلجھانے میں غور و فکر کیا جائے کوئی عمل کی بہتر راہ میسر آسکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی بحثیں چھیڑنا جو صرف کام و دھن کی لذت کیلئے ہوں وہ بری راہیں ہیں لیکن اگر علم و تحقیق کے لئے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا چاہئے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آج کل کچھ لوگوں کا مشغلہ یہ ہے کہ ان کا زور خطابت صرف اس پر ختم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نور تھے یا بشر ؟ عالم الغیب تھے یا نہیں ؟ مردے ہماری بات اور فریاد کو سنتے ہیں یا نہیں وغیرہ وغیرہ ؟ غور کیجیے کیا حضور اکرم ﷺ اسی لئے تشریف لائے تھے کہ ان کی سیرت پاک ان کی مبارک زندگی جو ساری کائنات کے لئے قیامت تک کے لئے نمونہ عمل ہے اور نمونہ زندگی ہے اس کو تو نظر انداز کردیا جائے اور صرف پوری زندگی اسی بحث میں گذدار دی جائے کہ وہ نور تھے یا بشر یہ تو یہود و نصاریٰ کا مزاج تھا جس پر چل کر وہ قوم تباہ و برباد ہوگئی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب یہودیوں نے آپ سے روح کے متعلق سوال کیا تو اتنا فرمایا گیا کہ روح امر رب ہے یعنی اللہ کی مخلوق ہے لیکن عام مخلوق جیسی نہیں ہے بلکہ اس کے حکم ” کن “ کے نتیجہ میں یہ ” امر رب “ وجود میں آیا ہے چونکہ انسان کا علم بہت محدود اور قلیل ہے اس لئے صرف اتنا سمجھنا کافی ہے کہ اللہ نے اس کو اپنے حکم سے پیدا کیا ہے اور وہی اس کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے۔
Top