Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 86
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
(اے نبی ﷺ اگر ہم چاہیں تو ہم نے آپ پر جتنی بھی وحی بھیجی ہے اس کو سلب کرلیں پھر ہمارے مقابلے میں آپ کسی کو حمایتی بھی نہ پائیں گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 86 تا 89 لئن البتہ، اگر۔ شئنا ہم نے چاہا۔ لنذھبن البتہ ہم چاہیں گے۔ (لے جائیں گے۔ ) اوحینا ہم نے وحی کی۔ کبیر بڑا۔ اجتمعت جمع ہوگئی۔ ان تاتوا یہ کہ وہ لے آئیں۔ لایاتون وہ لا نہ سکیں گے۔ ظھیر مددگار۔ ابی انکار کردیا۔ تشریح : آیت نمبر 86 تا 89 اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے قرآن جیسی کتاب وحی کے ذریعہ نبی کریم ﷺ پر نازل فرمائی جس میں تمام انبیاء کرام کی تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑ موجود ہے۔ اس کتاب ہدایت پر عمل کرنے سے ایک نئی روحانی اور دنیاوی زندگی حاصل کرنا انسانی سعادت ہے۔ لیکن انسان کی یہ کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے اس کے انکار پر جمع کر بیٹھ جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ان دشمنان اسلام سے فرمایا جا رہا ہے جنہوں نے قرآن کی ابدی تعلیمات سے منہ موڑ کر اور ناقدری کر کے اپنے آپ کو دنیاوی آخرت کی ہر بھلائی سے محروم کرلیا ہے۔ فرمایا کہ ان کی ناقدری کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ زندگی کی راہوں میں بھٹکنے اور کفر و شرک پر قائم رہنے والوں کو بھٹکنے کے لئے اسی طرح چھوڑ دیا جاتا اور اس قرآن کو سلب کرلیا جاتا لیکن نبی کریم ﷺ پر اللہ کا یہ خصوصی فضل و کرم ہے کہ اس نے دنیا کو اس کتاب ہدایت سے محروم نہیں فرمایا بلکہ منکرین کی تمام تر حماقت و جہالت کے باوجود اللہ نے اس کی تعلیمات کو مکمل فرمایا۔ قرآن کریم ایک معجزہ ہے جس کے سامنے تمام دنیا کے انسان اور جنات تک اس قرآن جیسا لانے پر قدرت نہیں رکھتے۔ سامنے کی بات ہے کہ عرب کے کفار جو پانی زبان دانی پر فخر و غرور میں ساری دنیا کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے جب قرآن کریم نازل ہوا تو یہ سارے لوگ قرآن کے سامنے گونگے بن کر رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی پانچ سورتوں سورة بقرہ، سورة یونس، سورة ہود، سورة بنی اسرائیل اور سورة طور میں اس بات کا چیلنج کیا ہے کہ اللہ کے سوا کائنات میں جتنے بھی لوگ ہیں یا جنات ہیں وہ سب مل کر بھی اس قرآن جیسا بنا کر نہیں لاسکتے۔ ایسی ہدایت کی قدر نہ کرنا اور ناشکری اور ناقدری کا طریقہ اختیار کرنا سوائے بدنصیبی کے اور کیا ہے۔ کفار مکہ طرح طرح کے سوالات کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ (نعوذ باللہ) نبی کریم ﷺ نے اس قرآن کو خود ہی گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی زبان پر ناز کرنے والے جنات جن کو وہ غیبی طاقتوں کا پیکر سمجھتے تھے وہ سب مل کر بھی قرآن جیسی کتاب نہیں لاسکتے تو وہ بنی کریم ﷺ جنہوں نے ان کفار کے درمیان پوری زندگی گذاری ہے ہر شخص جانتا تھا کہ آپ نے کبھی کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ آپ ” امی “ لقب ہیں۔ پھر وہ کام جو ساری دنیا مل کر نہیں کرسکتی ایک نبی امی کیسے کرسکتے ہیں۔ حقیقتاً ان کی آنکھوں پر پردے پڑگئے ہیں کہ اتنی سی بات کو بھی نہیں سمجھتے اور اپنی ضد ہٹ دھرمی، فخر و غرور میں ایک سچائی کا انکار کے اللہ کی رحمت سے محروم ہوگئے۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی دو سب سے بڑی نعمتیں ہیں ایک تو قرآن کریم اور دوسری نعمت نبی مکرم خاتم النبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات گرامی ۔ چونکہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا اتنا زیادہ فضل و کرم ہے کہ اس نے کفار و مشرکین کی مخالفت اور ناقدری کے باوجود اس قرآن کو آپ کے قلب مبارک پر جمع فرمایا اور اس کی وضاحت کے ذریعہ ساری انسانیت کو راہ ہدایت عطا فرما دی اور بھٹکنے سے بچا لیا۔
Top