Baseerat-e-Quran - Al-Hijr : 51
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَنَبِّئْهُمْ : اور انہیں خبر دو (سنا دو ) عَنْ : سے۔ کا ضَيْفِ : مہمان اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اے نبی ﷺ انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا حال سنا دیجیے
لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 60 ضعیف مہمان۔ وجلون (وجل) ۔ ڈرنے والے لاتوجل تو خوف نہ کر۔ تو نہ ڈر۔ نبشرک ہم خوش خبری دیتے ہیں تم کو۔ غلام علیم علم رکھنے والا لڑکا۔ الکبر بڑھاپا۔ القانطین مایوس ہونے والے۔ الضالون بہکنے والے، گمراہ ۔ ماخطب کیا اصل کام ہے ؟ المرسلون بھیجے ہوئے ۔ منجوھم ہم ان کو بچا لیں گے قدرنا ہم نے فیصلہ کرلیا۔ اندازہ کرلیا۔ الغبرین پیچھے رہ جانے والے ۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 60 اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ ہزاروں گناہوں اور مسلسل خطاؤں کے باوجود وہ کسی کو ہر خطا پر نہیں پکڑتا لیکن جب کوئی بندہ یا کوئی قوم گناہ پر گناہ اور اللہ کی نافرمانیوں کی انتہا کردیتی ہے تب اس کی گرفت کی جاتی ہے۔ اللہ ہر آن اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے کے لئے اپنی رحمتیں بکھیرتا رہتا ہے۔ گزشتہ آیات میں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا اے نبی ﷺ ! آپ میرے بندوں کو بتادیجیے کہ میں بہت مغفرت کرنے والا مہربان ہوں لیکن جب میں گرفت کرتا ہوں تو پھر مجھ سے کوئی اپنے آپ کو چھڑا نہیں سکتا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان ہی دو کیفیات کا ذکر فرمایا ہے۔ کچھ فرشتے خوبصورت انسانوں کی شکل میں حضرت ابراہیم کے پاس پہنچے۔ حضرت ابراہیم ان کے اجنبی چہروں سے ان کو مہمان سمجھ کر فوراً ہی گھر کے اندر تشریف لے گئے تاکہ جو کچھ میسر ہو وہ مہمانوں کی خدمت میں پیش کردیا جائے ۔ گھر میں بچھڑا تھا حضرت ابراہیم نے اس کو ذبح کیا اور بھنا ہوا گوشت لے کر مہمانوں کے پاس تشریف لائے تاکہ مہمان جی بھر کر کھانا کھا لیں۔ مگر حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ وہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا رہے ہیں۔ اس زمانہ میں اگر کوئی اجنبی مہمان کھانے سے انکار کردیتا تو یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ اس کے ارادے بظاہر اچھے نہیں ہیں۔ جب حضرت ابراہیم کے اصرار کے باوجود انہوں نے کھانے سے انکار کردیا تو حضرت ابراہیم کے دل میں یہ خوف پیدا ہونا قدرتی بات تھی کہ ان لوگوں کے آنے کا مقصد کیا ہے ؟ تب فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت ابراہیم پر ظاہر کردیا کہ وہ اللہ کے فرشتے ہیں جو ان کو (حضرت ابراہیم کو) حضرت اسحاق کی پیدائش کی خوش خبری دینے آئے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے بےساختہ کہا کہ اس بڑھاپے میں اولاد کی خوش خبری کیسے ممکن ہے۔ فرشتوں نے عرض کیا کہ اے ابراہیم ہم نے جو کچھ خوش خبری دی ہے وہ برحق ہے اور آپ مایوس نہ ہوں کیونکہ اللہ کی رحمت سے مایوس تو صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو گمراہ ہیں پھر حضرت ابراہیم کے پوچھنے پر ان فرشتوں نے کہا کہ ہم قوط لوط جیسی مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ البتہ حضرت لوط کے گھر والوں کو نجات دینے کے لئے آئے ہیں لیکن ان کی وہ بیوی جو نافرمان ہے اور اللہ پر یقین نہیں رکھتی ان مجرمین کی ساتھی ہے وہ بھی اس قوم کے ساتھ رہ جائے گی جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آنے والا ہے۔ ان آیات کی چند باتوں کی وضاحت ملاحظہ کر لیجیے : 1) ضعیف ابراہیم :- …… ابراہیم کے مہمان یعنی انہوں نے اپنے مہمانوں کے لئے کس قدر زبردست خلوص پیش کیا کہ ان کو سب سے پہلے اس بات کی فکر ہوگئی کہ یہ اجنبی مہمان ہیں قینا دور دراز سے آئے ہیں۔ بھوک پیاس سے نڈھال ہوں گے ہر بات سے پہلے ان کی مہمان داری میں لگ گئے۔ اپنے مہمانوں کی تواضح کے لئے خود ہی محنت و مشقت میں لگ گئے۔ نبی کریم ﷺ بھی اسی سنت انبیاء پر تھے کہ جب کوئی بھی مہمان آتا تو آپ اپنے دست مبارک سے اس کی خاطر تواضع میں کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ 2) جب وہ فرشتے انسانی شکل میں آئے تو انہوں نے آتے ہی سلام کیا۔ نبی کریم ﷺ کی ہدایات کی روشنی میں یہ اصول ملتا ہے کہ ہر آنے والا سب سے پہلے موجود لوگوں کو سلام کرے۔ اگر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوں تو جو کھڑے ہیں یا آنے والے ہیں وہ ان کو سلام کریں جو بیٹھے ہوئے ہیں۔ البتہ اگر کچھ لوگ تلاوت قرآن کریم یا نماز میں مشغول ہوں تو سلام نہیں کرنا چاہئے۔ 3) دشمن کا خوف طاری ہوجانا تقاضائے بشریت ہے۔ خوف پیدا ہونا بشریت یا نبوت کی شان کے خلاف نہیں ہے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے کفار سے چھپ کر رات کی تاریکی میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ کفار مکہ کی ایذا رسانیوں سے بچ کر غار ثور میں تین دن تک چھپے رہے اور اس کے بعد آپ حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ وہاں سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ 4) اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے کوئی چیز بعید نہیں ہے۔ وہ انسانوں کی طرح وسائل کا محتاج نہیں ہے بغیر ماں اور باپ کے حضرت آدم کو پیدا فرمایا۔ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ کو پیدا کیا، ایک سو دس سال کی عمر میں حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ جب اللہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کو کرنے کا حکم دیتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے۔ 5) ایک مومن اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم نے تعجب سے کہا کہ اس بڑھاپے میں میرے گھر کیسے اولاد ہو سکتی ہے جبکہ میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے یعنی اولاد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس پر فرشتوں نے عرض کیا کہ یہ اللہ کی رحمت اور اس کی طرف سے خوشخبری ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اس کائنات کے نظام کو چلاتا ہے۔ مایوس تو صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو راہ پر نہ ہوں اس سے معلوم ہوا کہ ایک مومن کو امید کا دامن تھامے رہنا چاہئے۔ 6) فرشتے مجرم قوم کو تباہ و برباد کرنے اور اللہ کے حکم سے ان تمام لوگوں کو نجات دینے کے لئے آئے تھے جو حضرت لوط کے ماننے والے تھے ” آل “ سے مراد یہی لوگ ہیں۔ اسی طرح فرشتوں کو یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ حضرت لوط کے گھر والوں کو بھی اللہ کے عذاب سے دور رکھیں لیکن حضرت لوط کی بیوی ان نجات پانے والوں میں شامل نہیں ہوگی کیونکہ وہ مجرم قوم کی ساتھی ہے جس طرح وہ لوگ پیچھے رہیں گے اسی طرح حضرت لوط کی بیوی کا انجام بھی ان ہی کے ساتھ ہوگا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اصل چیز ایمان ہے کسی کا رشتہ دار ہونا نجات کے لئے کافی نہیں ہے۔
Top