Baseerat-e-Quran - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور بیشک ہم نے انسان کو کھنکھناتے ہوئے سیاہ سڑے گا رے سے بنایا ہے
لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 44 صلصال وہ مٹی جو سوکھ کر سخت ہوجائے اور بجنے لگے ۔ مسنون گوندھی گئی۔ السموم لو۔ نفخت میں نے پھونک دیا۔ پھونک ماردی، حما سڑی ہوئی مٹی، کیچڑ۔ جان جن۔ سویت میں نے برابر کردیا۔ ٹھیک کرلیا۔ روحی میری روح ، قعوا گرپڑو۔ ابی انکار کیا۔ ان یکون یہ کہ وہ ہو۔ مالک تجھے کیا ہوا۔ لم اکن میں نہیں ہوں بشر انسان۔ اخرج نکل جا۔ لعنت لنت، اللہ کی رحمت سے دوری۔ انظرنی تو مجھے مہلت دیدے۔ یبعثون (اٹھائے جائیں گے) ۔ اغویت (اغوائ) تو نے سیدھی راہ سے ہٹا دیا ۔ سلطن قوت، زور الغوین بہکنے والے۔ موعد وعدہ کی جگہ۔ سبعۃ ابواب سات دروازے۔ جزاء حصہ۔ مقسوم تقسیم کیا گیا۔ تشریح : آیت نمبر 26 تا 44 اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیات میں کائنات اور اس کے عظیم الشان نظام کا ذکر فرمایا تھا کہ اس اللہ نے ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ زمین، آسمان، چاند، سورج ، ستارے ، شجر و حجر، دریا و سمندر اور ہر طرح کے پھلوں کو پیدا کیا تاکہ انسان اپنی زندگی کا سامان حاصل کرسکے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنات کی تخلیق، انسانی عظمت کے سامنے فرشتوں کو سجدہ کرنے اور ابلیس کی نافرمانیوں کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ ہم نے انسان کو کھنکھناتے ہوئے سیاہ سڑے گارے سے بنایا ہے اور جنات کو انسانوں سے بھی پہلے ایسی آگ سے پیدا کیا جو صاف و شفاف اور بغیر دھوئیں کے تھی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ میں ایسی مٹی سے انسان کو بنا رہا ہوں جو بجنے والی اور سڑے گارے والی ہے۔ جب میں انسانی پتہ بنا کر اس میں روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ کرنا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ لیکن ابلیس (شیطان) جو قوم جنات سے تھا اور فرشتوں کا سردار تھا اس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ اے ابلیس جب میں نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا تو تجھے کیا ہوا کہ تو نے اس کو سجدہ نہیں کیا۔ ابلیس نے کہا کہ میں ایسے بشر کو کیسے سجدہ کرسکتا تھا جو بجنے والی سڑی ہوئی مٹی سیپ یدا کیا گیا ہے۔ یعنی میں تو صاف شفاف آگ سے پیدا کیا گیا ہوں جس میں دھواں تک نہ تھا جب کہ انسان ایک حقیر مادہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کو میرے قدموں پر جھکنا چاہئے تھا۔ یہ اس کا تکبر اور پانی ذات کی بڑائی تھی جو اللہ کو پسند نہیں آئی۔ فرمایا کہ اے ابلیس تو یہاں سے نکل جا (جنت سے، آسمانوں سے ، گروہ ملائکہ سے) تو اللہ کی بارگاہ سے نکالا ہوا ہوگیا اور بیشک قیامت تک تیرے اوپر لعنت برستی رہے گی یعنی تو اللہ کی رحمت سے دور رہے گا۔ مزید تکبر کرتے ہوئے کہنے لگا کہ اے اللہ ! مجھے اس دن تک می ہلت دیجیے جب سارے انسان دوبارہ اٹھائی جائیں گے یعنی قیامت تک۔ اللہ نے فرمایا کہ ایک مدت مقرر تک یعنی قیامت تک تجھے مہلت دیدی گئی۔ ابلیس کہنے لگا کہ اے اللہ جیسا کہ تو نے مجھے (بھٹکا دیا (نعوذ باللہ، اللہ پر ہی الزام لگا دیا) میں بھی زمین میں ان کے دل فریب نظارے بکھیر دوں گا اور ان کو گمراہ کروں گا۔ ہاں البتہ وہ لوگ جو تیرے خالص بندے ہیں میں ان کا کچھ نہ کرسکوں گا۔ اللہ نے فرمایا کہ یہی راستہ سیدھا میری طرف آتا ہے یعنی یہی لوگ جو صراط مستقیم پر ہوں گے ان پر تیرا کوئی زور نہ چل سکے گا۔ رہے وہ لوگ جو تیرے پیچھے چلیں گے ان سے دوزخ کو بھر دوں گا، فرمایا کہ جہنم کے ساتھ دروازے ہیں ان کفار کے جیسے اعمال ہوں گے میں اس کے مطابق ان کو ان دروازوں سے گذار دوں گا۔ ان آیات سے متعلق چند ضروری وضاحتیں ملاحظہ کر لیجیے۔ 1) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر جگہ یہی ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے انسانوں کو ایک ایسی مٹی اور گارے سے بنایا ہے جو سڑا وہا، سیاہ اور کھنکھنانے والا اور بجنے والا مادہ ہے ۔ یعنی انسان کو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ وہ زمین کے اعلیٰ ترین مادے سے نہیں بلکہ سڑے ہوئے مادہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اللہ نے اس انسان کو کائنات میں عظمت عطا فرمائی ہے اور شیطان کے تکبر نے اسے قیامت تک اللہ کی بارگاہ سے نکلوا دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل ہے انسان میں خوبی اس کے حکم اور اطاعت سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ 2) تکبر اتنی بری چیز ہے کہ وہ عزازیل جو قوم جنتا سے تھا اور تمام فرشتوں کا سردار بنا دیا گیا تھا جب اس نے اللہ کے حکم کی تعمیل نہیں کی، تکبر، غرور اور بڑائی اختیار کی تو اللہ نے اس کو نہ صرف فرشتوں کی سرداری ، جنت کی راحتوں اور عزت سے محروم کردیا بلکہ قیامت تک اس کو ابلیس اور شیطان کا نام دے دیا اور فرما دیا کہ جو شخص بھی اس متکبر اور غرور کا کہا مانے گا اللہ اس سے اسی طرح ناراض ہو کر اس کو ابدی جہنم میں جھونک دے گا۔ اللہ تعالیٰ کو تکبر اور نافرمانی کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔ 3) جو اللہ کے نیک اور مخلص بندے ہیں شیطان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ ان کی حفاظت اللہ کی طرف سے کی جاتی ہے۔ ایسے ہی لوگ صراط مستقیم پر ہیں اور جنت کی ابدی راحتوں کے مستحق ہیں۔ 4) اس کے برخلاف شیطان کے طریقوں کو اپنانے والے جیسے ان کے اعمال ہیں گے ہر ایک کے لئے ایک دروازہ بنا دیا ہے۔ جہنم کے کل سات دروازے ہیں۔ ان لوگوں کو ان دروازوں سے گذرنا ہوگا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس طرح جہنم کے ساتھ دروازے ہیں اسی طرح جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ان دروازوں سے اپنے اعمال کے مطابق ہر شخص جنت میں داخل ہوگا۔
Top