تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سورۃ الحجر
سورة نمبر 15
رکوع 6
آیات 99
الفاظ و کلمات 663
حروف 2907
مقام نزول مکہ مکرمہ
الحجر قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا جو وادی القریٰ میں مدینہ منورہ سے ملک شام جاتے ہوئے لب سڑک پڑتا ہے ٩ ھ غزوہ تبوک میں کے موقع پر جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام اس مقام سے گذرے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اس جگہ ٹھہرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیزی سے آگے بڑھ جاؤ کیونکہ یہاں قوم ثمود پر عذاب نازل ہوا تھا۔ قوم عاد کی طرح قوم ثمود بھی عرب کی قدیم اور عظیم قوموں میں سے ایک قوم تھی جن کی تعمیرات کے فن کا یہ حال تھا کہ انہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر بیس بیس منزلہ عمارتیں بنا رکھی تھیں۔ مال و دولت کی کثرت ، خوش حالی اور بت پرستی نے اس قوم کو اتنا کھوکھلا کردیا تھا کہ جب حضرت صالح نے اس قوم کو ایمان اور عمل صالح کی طرف دعوت دی اور بتایا کہ جن بتوں کو تم پوجتے ہو ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔ اس قوم نے غرور اور تکبر سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ اللہ کے حکم کے باوجود انہوں نے اس اونٹنی کو بھی ذبح کردیا جو معجزہ کے طور پر ان کو ید گئی تھی۔ جب نافرمانیوں کی انتہا ہوگئی تب اللہ نے اس قوم پر عذاب نازل کیا اور ان کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ ان کی تہذیب و تمدن، تعمیر و ترقی، مال و دولت ان کے کسی کام نہ آسکے۔ ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ جن کے شہروں کے کھنڈرات آج بھی نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ فرمایا گیا کہ ہر قوم کو ایک موقع پر مہلت دی جاتی ہے اگر وہ اس سے فائدہ اٹھاتی ہے تو اس کی نجات کا سامان ہوجاتا ہے ورنہ قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور دوسری ظالم قوموں کے ساتھ ان کو ان کے انجام سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے قرآن کریم کی شکل میں ایک ایسی کتاب زندگی عطا فرمئای ہے جس کے اصول نہایت صاف ستھرے اور واضح ہیں۔ انداز بیان شگفتہ اور فیصلہ کن ہے اس کا کوئی انداز ایسا نہیں ہے جس کے سمجھنے میں کسی کو بھی کوئی دشواری یا الجھن ہو سکتی ہو۔ وہی ایک سچائی کی روشنی ہے جس سے دلوں کو منور روشن کیا جاسکتا ہے لیکن ایسے بد نصیب لوگ بھی ہیں جو اس سچائی کو ماننے کے بجائے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ شاید ہماری آنکھوں پر جادو کردیا گیا ہے اس کے برخلاف وہ خوش نصیب بھی ہیں جو اس حقیقت کو مان کر خود راہ زندگی کے روشن ساترے بن چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو شیطانی وسوسوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ شیطان نے ابتدائے کائنات کے وقت ہی یہ کہہ دیا تھا کہ اے اللہ مجھے اتنی مہلت دیجیے کہ میں ثابت کرسکوں کہ انسان بالکل بےحقیقت چیز ہے۔ فرمایا کہ شیطان اپنے جال بچھا کر اس میں اللہ کے بندوں کا شکار کرتا ہے اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ شیطان کے چکر میں آجائیں گے ان سے میں جہنم کو بھر دوں گا اور جو نیک اور پرہیز گار ہوں گے وہ جنت کی ابدی راحتوں کے مستحق ہوں گے۔
آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار و مشرکین کی پرواہ نہ کیجیے کھلم کھلا اللہ کے دین کی دعوت دیجیے یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ جو لوگ آج اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑا رہے ہیں اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو خود ان کی زندگیاں مذاق بن کر رہ جائیں گی۔
* یہ سورت بھی مکی دور کے آخری زمانہ کی سورتوں میں سے ایک سورت ہے جس میں مکہ و مدینہ میں آباد کفار و مشرکین کو قوم عاد اور قوم ثمود کے واقعات سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تم ان کھنڈرات سے گذرتے ہو جو کبھی خوب آباد تھے مگر نافرمانیوں کی وجہ سے آج وہ نشان عبرت بن چکے ہیں۔
* اس سورت میں ایک ہی وقت میں حضرت ابراہیم کو بیٹے کی خوش خبری دی گئی ہے اور ان ہی فرشتوں نے اللہ کے حکم سے قوم لوط کی تباہی کی اطلاع دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خوشی اور غم سب اللہ کی طرف سے ہیں۔