Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 12
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ١ؕ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں لِّمَنْ : کس کے لیے مَّا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین قُلْ : کہ دیں لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے كَتَبَ : لکھی ہے عَلٰي نَفْسِهِ : اپنے (نفس) آپ پر الرَّحْمَةَ : رحمت لَيَجْمَعَنَّكُمْ : تمہیں ضرور جمع کرے گا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں اَلَّذِيْنَ : جو لوگ خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ فَهُمْ : تو وہی لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائیں گے
( ان سے) پوچھو کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے کس کا ہے کہہ دو خدا کا۔ اس نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔ وہ تم سب کو قیامت کے دن جس میں کچھ بھی شک نہیں ضرور جمع کرے گا۔ جن لوگوں نے اپنے تئیں نقصان میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لاتے۔
آیت نمبر 13, 12 تفسیر : (قل لمن مافی السموت والارض) اگر جواب دیں تو ٹھیک ورنہ آپ خود کہہ دیں ( قل للہ کتب) فیصلہ کیا ( علی نفسہ الرحمۃ) یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفقت کا اظہار ہے ان لوگوں کے لیے جو اس سے پیٹھ پیھر رہے ہیں تاکہ وہ اس پر متوجہ ہوں اور خبر ہے کہ اللہ بندوں پر مہربان ہے جلدی سزا نہیں دیتا اور توبہ اور رجوع کو قبول کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور ایک تحریر لکھی جو اللہ کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ بیشک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے دوسری روایت ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میری رحمت میرے غصہ سے سبقت لے گئی ہے۔ (روا البخاری) اللہ تعالیٰ کی سو رحمتوں میں سے ایک رحمت دنیا کیلئے ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے لیے سو رحمتیں ہیں ایک رحمت جن ، انسانوں، جانوروں اور حشرات کے درمیان تقسیم کردی۔ پس اسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر شفقت اور رحم کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچوں پر شفیق ہیں اور ننانوے رحمتیں اللہ نے موخر کردی ہیں ان کے ذریع اپنے بندوں پر قیامت کے دن رحم کریں گے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کچھ قیدی لائے گئے ان میں ایک عورت تھی جس کے پستان سے دودھ نکل رہا تھا وہ قیدیوں میں جس چھوٹے بچے کو پاتی تو اس کو پکڑ کر اپنے ساتھ چمٹا لیتی اور دودھ پلا دیتی تو نبی کریم ﷺ نے ہم سے پوچھا کہ کیا تمہار خیال ہے کہ یہ عورت اپنے بچو کو آگ میں ڈال دے گی تو ہم نے عرض کیا نہیں تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس عورت کے اپنے بچے پر رحم کرنے سے زیادہ رحم کرتے ہیں ( لیجمعتکم ) اس میں لام قسم کا ہے اور نون تاکید ہے۔ یعنی الہل کی قسم اللہ تم کو ضرور اکٹھا کرے گا ص الی یوم القیمۃ) قیامت کے دن میں اور کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ تم کو تمہاری قبروں میں قیامت کے دن تک جمع کرے گا ( لاریب فیہ ط الذین خسروا انفسھم فیھم لا یومنون) (ولہ ما سکن فی الیل والنھار) قرار پکڑتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ مراد وہ چیز ہے جو ساکن اور متحرک ہوتی ہو جیسے اللہ تعالیٰ کے فرمان ” سرابل تقیکم الحر “ میں مطلب یہ ہے کہ وہ تمہیں گرمی اور سردی سے بچاتی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ سکون کو ذکر کیا ہے کیونکہ اس میں نعمت زیادہ ہے اور محمد بن جریر (رح) کہتے ہیں کہ جس چیز پر سورج طلوع اور غروب ہو وہ ” ساکن اللیل والنھار “ ہے اس سے مراد زمین کی تمام چیزیں ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اسی کے لیے ہے جس پر رات اور دن گزرتے ہیں۔ ( وھوالسمیع العلیم)
Top