Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 102
ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُ١ۚ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ
ذٰلِكُمُ : یہی اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا : سوائے هُوَ : اس خَالِقُ : پیدا کرنیوالا كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز فَاعْبُدُوْهُ : سو تم اس کی عبادت کرو وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز وَّكِيْلٌ : کارساز۔ نگہبان
یہی (اوصاف رکھنے والا) خدا تمہارا پروردگار ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (وہی) ہر چیز کا پیدا کرنے والا (ہے) تو اسی کی عبادت کرو۔ اور وہ ہر چیز کا نگراں ہے
(102) ذلکم اللہ ربکم لا الہ الا ھو خالق کل شیء فاعبدوہ) یعنی اس کی اطاعت کرو (وھو علی کل شیء وکیل) اس کی حفاظت اور تدبیر کر کے ۔ (لاتدر کہ الابصار وھو یدرک الابصار) ۔ رویت باری تعالیٰ کا ثبوت اور معتزلہ کی تردید ان جیسی آیات کے ظاہر سے معتزلہ نے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن نہیں۔ اور اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ” رئویت عیانا “ ثابت ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے اپنے رب رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا (کلا انھم عن ربھم یومئذ لمعجوبون) امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اگر مئومنین نے اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن نہ دیکھنا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کافروں کو یہ عار نہ دلاتے کہ اس دن تمہارے سامنے پردہ ہوگا اور نبی کریم ﷺ نے آیت پڑھی (للذین احسن الحنسی، ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نیکی کی حسنیٰ (جنت) ہے اور زیادتی) اور زیادتی کی تفسیر فرمائی کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی زیارت ہے۔ جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم عنقریب اپنے رب کو آمنے سامنے دیکھ لو گے۔
Top