Tafseer-e-Baghwi - Al-Waaqia : 74
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَسَبِّحْ : پس تسبیح کیجیے بِاسْمِ : نام کی رَبِّكَ الْعَظِيْمِ : اپنے رب عظیم کے (نام کی)
ہم نے اسے یاد دلانے اور مسافروں کے برتنے کو بنایا ہے
73 ۔” نحن جعلناھا “ ہم نے اس کو یعنی دنیا کی آگ کو پیدا کیا۔ ” تذکرۃ “ بڑی آگ کے لئے۔ جب اس کو دیکھنے والا دیکھے گا تو جہنم کو یاد کرے گا۔ اس کو عکرمہ اور مجاہد اور مقاتل رحمہم اللہ نے کہا ہے اور عطائؒ فرماتے ہیں نصیحت جس کے ذریعے مومن نصیحت حاصل کرے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدم کی آگ جو وہ جلاتے ہیں جہنم کی آگ کے ستر جزء میں سے ایک جزء ہے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! اگر یہ یہوتی تو کافی تھی۔ فرمایا اس جہنم کی آگ کو اس دنیا کی آگ پر انہتر 69 جزء فضیلت دی گئی ہے۔ ” ومتاعا “ منفعت کا۔ ” للمقوین “ مسافروں کے لئے۔ المقوی زمین میں پڑائو ڈالنے والا اور ” القیٰ القواء “ چٹیل میدان جو آئادی سے دور ہو۔ کہا جاتا ہے قوت الدار جب وہ رہنے والوں سے خالی ہو اور معنی یہ ہے کہ اس سے جنگل کے رہنے والے لوگ اور مسافر نفع حاصل کرتے ہیں کیونکہ ان کا اس سے نفع حاصل کرنا مقیم لوگوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ رات کو آگ جلاتے ہیں تاکہ اس کے ڈر سے درندے بھاگ جائیں اور بھٹکے ہوئے مسافر راہ پالیں اور اس کے علاوہ بھی کئی منافع ہیں۔ یہ اکثر مفسرین رحمہم اللہ کا قول ہے اور مجاہد اور عکرمہ (رح) فرماتے ہیں ” للمقوین “ یعنی تمام لوگوں میں سے اس نفع اٹھانے والوں کے لئے خواہ مسافر ہوں یا مقیم وہ تاریکی میں اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور ٹھنڈے گرمائش حاصل کرتے ہیں اور سالن روٹی پکانے میں نفع حاصل کرتے ہیں۔ حسن (رح) فرماتے ہیں مسافروں کے لئے پہنچنے کا ذریعہ ہے کہ اس کے ذریعے اپنے سفروں تک پہنچتے ہیں اس کو اپنے تھیلوں میں اٹھا لیتے ہیں اور ابن زید (رح) فرماتے ہیں بھوکوں کے لئے۔ عرب کہتے ہیں ” اقویت منذکذاوکذا “ یعنی میں نے کچھ نہیں کھایا۔ قطرب (رح) فرماتے ہیں ” المقوی “ اضداد میں سے ہے ۔ فقیر کو ” مقو “ کہا جاتا ہے اس کے مال سے خالی ہونے کی وجہ سے اور مال دار کو ” مقو “ کہا جاتا ہے اس کی اپنے ارادہ پر طاقت کی وجہ سے۔ کہا جاتا ہے ” اقوی الرجل “ الرجل جب تونے اس کو مویشی دیئے ہوں اور اس کا مال زیادہ ہوگیا ہو اور وہ قوت کی حالت میں ہوگیا ہو اور معنی یہ ہے کہ اس میں مال داروں اور فقراء سب کے لئے نفع ہے اس سے کوئی مستغنی نہیں ہے۔
Top