Tafseer-e-Baghwi - Al-Furqaan : 20
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً١ؕ اَتَصْبِرُوْنَ١ۚ وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : بھیجے ہم نے قَبْلَكَ : تم سے پہلے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع) اِلَّآ : مگر اِنَّهُمْ : وہ یقیناً لَيَاْكُلُوْنَ : البتہ کھاتے تھے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشُوْنَ : اور چلتے پھرتے تھے فِي الْاَسْوَاقِ : بازاروں میں وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا (بنایا) بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض کو (کسی کو) لِبَعْضٍ : بعض (دوسروں کے لیے) فِتْنَةً : آزمائش اَتَصْبِرُوْنَ : کیا تم صبرو کرو گے وَكَانَ : اور ہے رَبُّكَ : تمہارا رب بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے کیا تم صبر کرو گے ؟ اور تمہارا پروردگار تو دیکھنے والا ہے
20۔ وماارسلناقبلک من المرسلین، ، اے محمد ﷺ ، الاانھم لیاکلون الطعام، ضحاک نیابن عباس ؓ عنہماکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ جب مشرکوں نے رسول اللہ پر مفلس اور نادار ہونے کا طنز کیا اور کہا، مالھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق، ، تو آپ کو اس پر رنج ہوا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، ویمشون فی الاسواق، بعض نے اس آیت کا یہ مطلب بیا ن کیا کہ ہم نے آپ سے پہلے بھی جتنے انبیاء کرام دنیا پر بھیجے ان کو بھی اسی طرح کہا گیا جیسے آپ کو کہاجارہا ہے۔ حالانکہ وہ بھی زمین پرچلتے بازار میں جاتے اور کھانا کھاتے تھے۔ وجعلنابعضکم لبعض فتنہ، مالدار کو نادار کے لیے مصیبت بنادیا۔ فقیر کہتا ہے کہ میں اس مالدار کی طرح کیوں نہیں ہواتندرست بیمار کے لیے مصیبت ہے اور شریف رذیل کے لیے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لیے آزمائش بنادیا ہے تاکہ جو لوگ تمہارے مخالف ہیں اور تمہاری مخالفت میں باتین کرتے ہیں اور تم ان کی باتوں کو سنتے اور ان کی مخالفتوں کو دیکھتے ہو تو تم ان کی اس اذیت رسانی پر صبر کرو اور اپنے سیدھے راستے پر چلتے رہو۔ بعض حضرات نے کہا کہ اس آیت کا نزول ابتلاء ہے کہ شریف ، رذیل کو دیکھ کر شکرادا کرتا ہے اور بسا اوقات اگر شریف آدمی اور اعلی طبقہ کا شخص اسلام لاناچاہتا اور اس سے پہلے کوئی زیریں طبقے کا شخص مسلمان ہوجاتا تو اس اونچے طبقے والے کو خیال ہوتا کہ اب اگر میں مسلمان ہواتو اس رذیل شخص کو مجھ پر برترحاصل ہوگی اور مجھے اس کے پیچھے رہنا پڑے گا، یہ سوچ کر وہ اپنا ارادہ بدل دیتا، اور کفرپر ہی ڈٹارہتا، بعض کے بعض کے لیے آزمائش ہونے کا یہی مطلب ہے یہ بھی کلبی کا قول ہے۔ مقاتل کا بیان ہے کہ اس آیت کا نزول، ابوجہل، ولید بن عقبہ، عاص بن وائل ، نضر بن حارث، کے حق میں ہوا تھا، انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابوذر، حضرت ابن مسعود، حضرت عمار، حضرت بلال، حضرت صہیب، اور حضرت عامر بن فہیرہ، مسلمان ہوچکے ہیں کہنے لگے اب اگر ہم مسلمان ہوئے تو ان کے برابر ہوناپڑے گا۔ مقاتل کا بیان ہے کہ اس آیت کا نزول فقراء مومنین کے بارے میں ہوا، جن کے ساتھ قریش کے مشرکین مذاق اڑایا کرتے تھے وہ یہ کہتے تھے کہ ذرامحمد کے ساتھیوں کو دیکھو جن لوگوں نے ان کا ساتھ دیا ہے وہ تو ہمارے غلام ہیں ، غریب طبقے کے لوگ ہیں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خطاب کرکے فرمایا، اتصبرون، فقر وشدت بھوک اور ان کی اذیتوں پر صبر کریں۔ وکان ربک بصیرا، جو شخص ان مصائب پر صبر کرے اور جو جزع فزع کرے ان سب کو دیکھنے والا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں کوئی مالدار اور جسم کے لحاظ سے اپنے سے اونچے کو دیکھتے تو اپنے سے کمزور والے کو بھی دیکھے تاکہ اس سے وہ شکرادا کرسکے۔
Top