Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 269
یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا١ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
يُّؤْتِي : وہ عطا کرتا ہے الْحِكْمَةَ : حکمت، دانائی مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَ : اور مَنْ : جسے يُّؤْتَ : دی گئی الْحِكْمَةَ : حکمت فَقَدْ اُوْتِيَ : تحقیق دی گئی خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : نصیحت قبول کرتا اِلَّآ : سوائے اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں
269۔ (یؤتی الحکمۃ من یشاء اللہ تعالیٰ حکمت عطا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے) امام سدی (رح) فرماتے ہیں کہ حکمت سے مراد نبوت ہے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قرآن کا علم ہے اس کے ناسخ منسوخ محکم متشابہ ، مقدم ومؤخر اس کے حلال و حرام اور اس کی امثال کا علم ہے ، امام ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ حکمت سے مراد قرآن اور اس کا فہم ہے اور فرمایا کہ قرآن میں ایک سو نو (109) آیات ناسخ منسوخ ہیں اور ایک ہزار آیات حلال و حرام کے متعلق ہیں، مؤمنین میں سے کوئی بھی شخص ان آیات کو ضرور سیکھتا ہے اور کوئی بھی اہل نھروان کی طرح نہیں کہ انہوں نے قرآن کی ان آیات میں تاویلات کیں جو اہل قبلہ اور اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئیں ، ان آیات کے علم سے جاہل رہے اور انہوں نے خون بہایا اور انکے مال لوٹے اور وہ گمراہی پر ڈٹے رہے ، پس تمہارے اوپر ان کے لیے قرآن کی تعلیم لازم ہے جو چیز تم پر نازل کی گئی تاکہ یہ آپس میں اختلاف نہ کریں ، امام مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قرآن کریم ، علم اور فقہ ہے ، ابن ابی نجیح (رح) سے روایت ہے کہ حکمت سے مراد قول وفعل میں درستگی ہے۔ ابراہیم نخعی (رح) فرماتے ہیں کہ حکمت سے مراد اشیاء کے معانی اور ان کا سمجھنا ہے (ومن یؤت الحکمۃ اور جس کو حکمت دی گئی) ” من یؤت “ من من محل رفع میں واقع ہے ” مالم یسم “ فاعلہ ہونے کی وجہ سے اور ” والحکمۃ خبر ہے اور امام یعقوب (رح) نے ” یؤتی الحکمۃ “ تاء کے کسرہ کے ساتھ ہے ای ” من یؤتہ اللہ الحکمۃ “ اور اعمش (رح) نے ” ومن یؤتہ اللہ “ ۔ اور حسن نے ” ومن یؤت الحکمۃ پڑھا ہے ، بعض نے کہا کہ حکمت سے مراد اللہ کے دین میں ورع ہے (فقد اوتی خیرا کثیرا “ اور جس کو حکمت عطا کی گئی اس کو بڑی خیر کثیر عطا کی گئی) حسن (رح) فرماتے ہیں کہ جس کو قرآن کریم دیا گیا گویا اس کو نبوت کے درجات میں سے ایک کنارہ عطا کیا گیا مگر یہ کہ اس پر وحی نہیں کی جاتی اور انبیاء کرام (علیہم السلام) پر وحی کی جاتی ہے ۔ (وما یذکر اور نہیں نصیحت قبول کرتا) ” یذکر “ سے مراد نصیحت ہے (الا اولوا الباب مگر عقل والے) اس سے مراد ذوی العقول ہیں۔
Top