Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب سَاَلَكَ : آپ سے پوچھیں عِبَادِيْ : میرے بندے عَنِّىْ : میرے متعلق فَاِنِّىْ : تو میں قَرِيْبٌ : قریب اُجِيْبُ : میں قبول کرتا ہوں دَعْوَةَ : دعا الدَّاعِ : پکارنے والا اِذَا : جب دَعَانِ : مجھ سے مانگے ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پس چاہیے حکم مانیں لِيْ : میرا وَلْيُؤْمِنُوْا : اور ایمان لائیں بِيْ : مجھ پر لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْشُدُوْنَ : وہ ہدایت پائیں
اور (اے پیغمبر ﷺ جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں
(تفسیر) 186۔ : (آیت)” واذا سالک عبادی عنی فانی قریب “ کلبی نے ابو صالح سے روایت کی ، انہوں نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہود مدینہ نے کہا یا محمد ! ﷺ ہمارا رب ہماری دعا کیسے سنتا ہے ؟ حالانکہ آپ کا دعوی ہے کہ ہمارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے پھر ہر آسمان کی موٹائی بھی اسی قدر ہے ۔ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور ضحاک (رح) کہتے ہیں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے حضور کریم ﷺ سے پوچھا کیا ہمارا رب قریب ہے ؟ ہم اس کو سرگوشی کے انداز میں پکاریں یا دور ہے کہ باآواز بلند ندا دیں ؟ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت)” واذا سالک عبادی عنی فانی قریب “ اور اس میں عبارت پوشیدہ ہے ، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس ان کو فرما دیجئے بیشک میں علم کے ساتھ ان کے قریب ہوں مجھ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت)” ونحن اقرب الیہ من حبل الورید “۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضور اقدس ﷺ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے تو لوگ ایک وادی پر چڑھے تو انہوں نے اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ کے ساتھ آوازیں بلند کیں ، پس حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ٹھہرو (اپنے آپ پر رحم کرو) تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے تم اس ذات پاک کو پکار رہے ہو جو ذات کریم سننے والی بھی ہے اور قریب بھی اور وہ تمہارے ساتھ ہے ۔ ” اجیب دعوۃ الداع اذا دعان “ اہل مدینہ نے سوائے قالون اور ابو عمرو کے دونوں جگہ وصل کی صورت میں یاء کو ثابت رکھ کر پڑھا ہے ۔ یعنی ” الداع “ کو ” الداعی “ اور دعان کو دعانی پڑھا ہے اور باقی قراء وصل اور وقف دونوں حالتوں میں یاء کو حذف کرکے پڑھا ہے اور اسی طرح قراء نے ان تمام یاء ات میں جو خط میں محذوف ہیں (یعنی تحریر میں نہیں آئیں) ان کو تلاوت حذف کرنے یا ثابت رکھنے میں اختلاف کیا ہے اور یعقوب نے تمام یاء ات کو وصل اور وقف کی دونوں حالتوں میں ثابت رکھا ہے اور باقی قراء نے ان یاء ات کو ثابت رکھنے میں اتفاق کیا ہے حالت وصل میں بھی اور حالت وقف میں بھی جو تحریرا ثابت و موجود ہیں ۔ ” فلیستجیبوالی “ کہا گیا ہے ، استجابت بمعنی اجابت ہے یعنی اطاعت کے ساتھ میری اجابت کریں یعنی لبیک کہیں ۔ اور اجابت کا معنی لغت میں اطاعت ہے اور جو چیز مانگی جائے اور دے دینا ، لہذا لفظ اجابت کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوگی تو معنی ہوگا عطا کرنا اور جب بندہ کی طرف ہوگی تو معنی ہوگا اطاعت کرنا اور کہا گیا ہے ” فلیستجیبوالی “ کا معنی ہے یعنی مجھ سے اجابت کی درخواست کریں اور استجابت کی حقیقت یہ ہے کہ میری اطاعت کریں ، (آیت)” ولیومنوا بی لعلھم یرشدون “ تاکہ راہ پائیں اور اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (آیت)” اجیب دعوۃ الداع “ کا اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی (آیت)” ادعونی استجب لکم “ کا کیا معنی ہوگا حالانکہ ہم کبھی بہت زیادہ پکارتے ہیں۔ پس وہ قبول نہیں فرماتا ؟ ہم جواب میں کہتے ہیں ان دو آیات کے معنی ہیں انہوں نے اختلاف کیا ہے کہا گیا ہے یہاں لفظ ” ادعونی “ اور دعوۃ الداع سے مراد اطاعت ہے اور اجابت کا معنی ثواب دینا ہے اور کہا گیا ہے ان دونوں آیات کا معنی خاص ہے ، اگرچہ دونوں کے لفظ عام ہیں ، لہذا ان دونوں آیات کی تقدیر عبارت ہوگی ” اجیب دعوۃ الداع ان شئت “ کہ میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں اگر میں چاہوں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتے ہیں، فیکشف ما تدعون الیہ ان شائ “ (تو اس آیت میں بھی مصیبت اور تکلیف کو دور کرنے کو مشیت کے ساتھ مقید کردیا ، اسی طرح یہاں بھی قبولیت دعا مشیت کے ساتھ مقید ہوگی) یا معنی یہ ہوگا کہ میں دعا قبول کرتا ہوں اگر دعا کرنے والے کی دعا میرے تقدیری فیصلہ کے مطابق ہو یا پھر معنی ہوگا کہ میں دعا قبول کرتا ہوں ، اگر دعا کا قبول کرنا دعا مانگنے والے کے حق میں بہتر ہو یا معنی ہوگا کہ میں دعا قبول کرتا ہوں اگر دعا کرنے والا کسی امر محال کی دعا نہ کرے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی ایک کی دعا کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتے جب تک کہ گناہ سے متعلق دعا نہ کرے یا اس کی دعا کا تعلق قطع رحمی سے نہ ہو اور دعا کے معاملہ میں جلد بازی نہ کرے ، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ دعا سے متعلق جلد بازی کے کیا معنی ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ دعا مانگنے والا کہے اے میرے رب ! بیشک میں نے تجھ سے مانگا اے میرے رب بیشک میں نے تجھ سے دعا کی پس میں نہیں دیکھتا کہ تو میری دعا قبول کرے ، پس اس وقت وہ دعا مانگنے سے تھک جاتا ہے اور دعا مانگنا چھوڑ دیتا ہے اور کہا گیا ہے کہ اجابت دعا کا مفہوم عام ہے (یعنی کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے) اور اجیب کا معنی ہوگا کہ میں سنتا ہوں اور کہا جاتا ہے کہ آیت کریمہ میں اس سے زیادہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ استجابت دعا فرماتا ہے باقی رہا مدعا اور آرزو عطا فرمانا یہ اس میں مذکور نہیں ہے۔ اور ایسا ہوتا ہے کہ کبھی سردار اپنے غلام کو جواب دیتا ہے اور والد اپنے بیٹے کو جواب دیتا ہے پھر اس کا سوال پورا نہیں کرتا اور اجابت یعنی جواب ہر حال میں دعا کے وقت ثابت ہونے والی چیز مقدر میں ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے وگرنہ اسے نہیں دیتا اور اس دعا کا اجر وثواب اس شخص کے لیے ذخیرہ آخرت کردیا جاتا ہے یا پھر اس دعا کی برکت سے اس بندہ سے کسی مصیبت کو روک دیا جاتا ہے اور اجابت دعا کے اس مفہوم پر دلیل وہ روایت ہے ، حضرت عبادہ بن الصامت ؓ سے روایت ہے کہ بیشک حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ روئے زمین پر جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے جو بھی دعا کرتا ہے مگر یہ کہ و تو اللہ تعالیٰ اس کو وہی چیز عطا فرماتے ہیں جو وہ مانگتا ہے یا پھر مانگی ہوئی چیز کے مثل اس سے کسی برائی (تکلیف) کو ٹال دیتے ہیں جب تک کہ بندہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور بعض نے کہا کہ بیشک اللہ تعالیٰ بندہ مومن کی دعا کا جواب دینا ہو تو فورا فرماتے ہیں مگر جس شخص کی مراد کو پورا فرمانا چاہتے ہیں اس کی مقصد براری کو مؤخر فرما دیتے ہیں تاکہ وہ بندہ دعا مانگتا رہے اور اللہ تعالیٰ اس کی (پرسوز) آواز کو سنتا رہے اور جس شخص کی آواز کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے ہیں اس کی مانگی ہوئی چیز اسے فورا دے دیتے ہیں بعض نے کہا کہ دعا کے کچھ آداب اور شرطیں ہیں جو کہ قبولیت دعا کے اسباب ہیں جو شخص ان آداب و شرائط کو پورا کرتا ہے وہ اس لائق ہوجاتا ہے کہ اس کی مراد پوری کی جائے اور جو ان آداب کو پورا نہیں کرتا تو وہ شخص ان لوگوں میں سے ہوجاتا ہے جو کہ دعا کرنے میں حد سے بڑھنے والے ہوتے ہیں ، چناچہ وہ شخص قبولیت دعا کا مستحق نہیں رہتا۔ خاصیت آیت 186۔ (آیت)” وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لِیْ وَلْیُؤْمِنُواْ بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (186) ایک عارف فرماتے ہیں اس آیت سے کئی باتیں مراد ہوسکتی ہیں ۔ (1) سوال (2) قرب (3) قبولیت (4) طلب قبولیت ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا ارشاد ہے کہ یہ آیت حضرت عمر فاروق اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی کہ انہوں نے رمضان المبارک کی رات میں اپنے بیویوں سے قربت کرلی اور بعد میں بہت ندامت ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ اب ہم کس طرح توبہ کریں ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہودیوں نے حضور اقدس ﷺ سے سوال کیا کہ آسمان ہم سے پانچ سو سال کی مسافت پر ہے پھر آسمان کا حجم بھی ہے تو اتنے فاصلہ سے اللہ تعالیٰ ہماری پکار کو کس طرح سن لیتا ہے ؟ اس کے جواب میں آیت نازل ہوئی ۔ ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہمارا رب ہمارے قریب ہے کہ ہم اس سے آہستگی سے مانگیں یا دور ہے کہ ہم اسے اونچی آواز سے پکاریں تو اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہاں عبادی سے مراد اللہ تعالیٰ کے خاص الخاص بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی چیز کا سوال ہی نہیں کرتے نہ وہ کسی امر کی حکمت کا سوال کرتے ہیں اور نہ کسی مخلوق کا اور نہ دنیا کی کسی اور چیز کا سوال کرتے ہیں ، کیونکہ ان کا مقصود و مطلوب تو فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ ان لوگوں میں سے نہیں جو کہ پہاڑوں ‘ یتیموں ، محترم مہینوں یا حیض وغیرہ کے بارے میں سوال کرتے ہیں اسی لیے یہاں ان کے جواب میں فرمایا (آیت)” فانی قریب “۔ اور جن لوگوں نے پہاڑوں ، یتیموں اور حرام مہینوں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا ان کا جواب قل سے دیا کہ اے پیغمبر ﷺ آپ انہیں بتادیں ، پہلے لوگوں کو بلاواسطہ جواب ملا اور دوسروں کو بالواسطہ کیونکہ ہر ایک سوال اس کی اپنی اندرونی کیفیت وحالت پر دلالت کرتا ہے ، اب یہ مخصوص بندوں کا جو سوال ہے اس قسم کا سوال جہت مسافت کے قریب پر دلالت کرتا ہے اس لیے اس کے جواب میں انی قریب کے بعد ” اجیب دعوۃ الداع “ فرمایا تاکہ یہاں پر قرب سے جہات ومسافات کا قرب نہ سمجھ بیٹھے ، اللہ تعالیٰ کا ذات جہات ومکانات میں آنے سے پاک اور وداء ہے ۔ لہذا اس قرب سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس داعی کی دعا فورا قبول فرما لیتا ہے معلوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ کے قریب ہونا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے اپنے بندہ کو دعا کی توفیق عطا فرماتا ہے پھر اس کی دعا قبول فرماتا ہے ۔ اور یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے قریب ہے اور بندہ اپنے رب کے قریب ہے مگر اللہ تعالیٰ کا قریب جہات ومسافات کا قرب نہیں ہوتا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ مقدار ومسافت وغیرہ کے معاملات سے پاک ہے اس لحاظ سے کوئی مخلوق اس کے ساتھ ملی ہوئی نہیں اور نہ کوئی دور ہے ۔ بلکہ اللہ کا قرب یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو عزت دیتا ہے اور بعد یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو اپنی بارگاہ سے دھتکار دیتا ہے اس دنیا میں بندہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا قرب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی معرفت عطا فرماتا ہے اور اسے اپنی فرمانبرداری کی توفیق عطا فرماتا ہے اور آخرت میں قرب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی لغزشوں کی معاف فرما کر اسے عزت بخشے گا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے قریب ہونا علم ، قدرت اور معاملہ سے ہوتا ہے چناچہ قرآن کریم میں ہے ۔ (آیت)” ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ونحن اقرب الیہ منکم ولکن لا تبصرون : وھو معکم این ما کنتم اور ما یکون من نجوی ثلثۃ الا ھو رابعھم : معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ قریب تو ہے مگر اس کا قرب بےکیف ہے اور ذات کا قرب نہیں ہے کیونکہ اس کے حق میں ذاتی قرب محال ہے اور بندہ کا اللہ تعالیٰ کے قریب ہونا تین طرح سے ہوسکتا ہے ۔ ایک اس طرح کہ بندہ اطاعت و عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو چناچہ رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے ۔ لہذا تم میں کوئی جب سجدہ میں ہو تو دعا مانگنے میں خوب کوشش کرے اور حدیث قدسی میں ہے کہ بندہ فرائض ادا کرنے سے زیادہ کسی اور چیز سے میرا قرب حاصل نہیں کرتا اور نوافل سے مزید قرب بڑھتا رہتا ہے ۔ الخ ۔ دوسرے اس طرح سے بندہ جب بری صفات کو چھوڑ کر اچھی صفات اختیار کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے بندہ جب نبوی اخلاق اپناتا ہے اور اس میں علم وبردباری ‘ عفو و درگزر ‘ پردہ پوشی اپناتا ہے اور دوست و دشمن ‘ نیک وبد سب پر برابر احسان کرتا ہے اور یہ اور یہ صفات اللہ تعالیٰ کی ہیں تو یقینا ان کے اختیار کرنے سے اسے اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے ۔ تیسرے اس طرح سے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے وجود اس کی عظمت اس کے جلال وجبروت پر یقین رکھتا ہے اور اس پر کہ اللہ تعالیٰ قاہر ہے مقہور نہیں ۔ غالب ہے مغلوب نہیں اور وہ کسی شے کے مشابہ نہیں اور نہ کوئی چیز اس کے مشابہ ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرلیتا ہے اور یہی قرب اعلی درجہ کا قرب ہے اور یہی معرفت الہیہ کا اعلی درجہ ہے جیسا کہ کسی کا شعر ہے ۔ ونلت المنی لما حللت بقربہ ولم یبق لی شی امنی بہ نفسی اور جب میں اس کے قریب اترا تو میرا مقصد حاصل ہوگیا اب میری کوئی ایسی آرزو باقی نہیں رہی جسے میں اپنے دل میں لاؤں ۔ اور جن کو معرفت الہی حاصل ہوتی ہے ۔ ان کا دل اسی قرب کے نور سے روشن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ۔ ” کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا “۔ یہاں قرب کا لفظ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے بندوں اور ولیوں کے دلوں کی انسیت کے لئے فرمایا ورنہ قرب ذاتی جسمانی اور قرب صفاتی ہے اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ۔ جیسا کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا ” لا تفضلونی علی یونس بن متی “۔ اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ معراج کی رات میں اگرچہ میں ایسے مقام پر پہنچا جہاں جبرئیل (علیہ السلام) بھی نہ جاسکتا تھا اور حضرت یونس (علیہ السلام) کو مچھلی نگل کر نیچے سے بھی نیچے لے گئی تھی پھر بھی میرے بارے میں یہ گمان نہ کرو کہ میں یونس (علیہ السلام) کی نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بلندی و پستی سب برابر ہیں۔ یہاں پر سوال بھی ہوتا ہے جب اس آیت میں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعا قبول کرتا ہے تو پھر یہ کیوں ہوتا ہے کہ بندہ جو چیز مانگتا ہے وہ اسے نہیں ملتی ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں ساتھ مشیت الہیہ کی قید بھی ساتھ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو قبول فرماتا ہے دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ یہاں ” اجیب اسمع “ کے معنی میں ہے کہ میں دعا مانگنے والے کی دعا کو سن لیتا ہوں اور سننے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اسے پورا بھی کردیا جائے تیسرا جواب یہ ہے کہ یہاں اجیب کا معنی یہ ہے جو اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ کہتا ہے رب تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لیبک عبدی (اے میرے بندے بتا) مگر یہ ضروری نہیں جواب دے کر سوال ضرور پورا کردیا جائے ۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ یہاں دعا عبادت کے معنی میں ہے اور اجابت سے مراد ثواب ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگی ہوئی چیز اسے دیدی جاتی ہے ۔ یا اس کے عوض اس سے کوئی مصیبت ہٹا دی جاتی ہے یا اس کی اس دعا کا عوض آخرت میں ذخیرہ کردیا جاتا ہے ۔ پانچواں جواب یہ ہے کہ جب کسی کی دعا قبولیت کے وقت میں واقع ہوجائے تو وہ قبول ہوتی ہے ، چناچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جمعہ کا دن افضل ہے اور اس میں ایک وقت ایسا ہے کہ جس میں مومن اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور وہ عطا فرماتا ہے ، حضرت عمر فاروق ؓ سے کسی نے کہا اگر کوئی منافق جمعہ کے اس وقت میں دعا مانگے تو اس کا کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ منافق کو اس وقت دعا کی توفیق ہی نہیں دیتا ۔ چھٹا جواب یہ ہے کہ جب تک بندہ اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرے ۔ ظلم نہ کرے نماز روزہ اور حج کو نہ چھوڑے ۔ غیبت نہ کرے اور حرام نہ کھائے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے فرمایا تھا ۔ حلال کھایا کرو تمہاری دعا قبول ہوگی ۔ ایک روایت ہے کہ کسی نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے پوچھا آپ کی دعا کے قبول ہونے کی وجہ کیا ہے آپ ؓ نے فرمایا اس لیے کہ میں اس وقت لقمہ منہ میں نہیں لے جاتا جب تک یہ معلوم نہ کرلوں کہ یہ کھانا کہاں سے آیا ہے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے غلام عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک رات میں اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کھجوروں کے ایک باغ میں ٹھہرے ۔ ہم دونوں بھوکے تھے اور کھانے کی کوئی چیز ہمارے پاس نہ تھی اور نہ ہی باغ کا مالک ہمیں وہاں مل پایا ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے مجھ سے فرمایا اگر تو سچا مسلمان ہے تو یہاں کی ایک کھجور بھی نہ چکھنا ۔ چناچہ ہم نے وہاں پر اپنی سواری باندھی اور ساری رات بھوکے ہی گزار دی ۔ جب صبح ہوئی تو باغ کا مالک آیا اور ہم نے اس سے کچھ کھجوریں اور گھاس قیمت دے کر خریدا اور کھجوریں خود کھائیں اور گھاس اپنی سواری کو کھلایا ۔ (سورہ بقرہ آیت 186 کی خاصیت) خواص و تنبیہ ۔ فلیستجیبوالی پر پہنچ کر دعا مانگے ان شاء اللہ مقبول ہوگی 12 اور پڑھے اللھم امرت بالدعا وتکفلت بالاجابۃ لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک الک لا شریک لک اشھدانک فرد احد صمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد واشھد ان وعدک حق ولقاء ک حق والجنۃ حق والنار حق والساعۃ اتیۃ لاریب فیھا وانک تبعث من فی القبور۔
Top