Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ : مہینہ رَمَضَانَ : رمضان الَّذِيْٓ : جس اُنْزِلَ : نازل کیا گیا فِيْهِ : اس میں الْقُرْاٰنُ : قرآن ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ بَيِّنٰتٍ : اور روشن دلیلیں مِّنَ : سے الْهُدٰى : ہدایت وَالْفُرْقَانِ : اور فرقان فَمَنْ : پس جو شَهِدَ : پائے مِنْكُمُ : تم میں سے الشَّهْرَ : مہینہ فَلْيَصُمْهُ : چاہیے کہ روزے رکھے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو مَرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی پوری کرے مِّنْ : سے اَيَّامٍ اُخَرَ : بعد کے دن يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُمُ : تمہارے لیے الْيُسْرَ : آسانی وَلَا يُرِيْدُ : اور نہیں چاہتا بِكُمُ : تمہارے لیے الْعُسْرَ : تنگی وَلِتُكْمِلُوا : اور تاکہ تم پوری کرو الْعِدَّةَ : گنتی وَلِتُكَبِّرُوا : اور اگر تم بڑائی کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا ھَدٰىكُمْ : جو تمہیں ہدایت دی وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو (حق وباطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو
(تفسیر) 185۔: (آیت)” شہر رمضان “ شھر کی پیش ہو شھر رمضان “ کے معنی پر ہے (گویا شہر رمضان مبتدا مخذوف کی خبر ہے) کسائی (رح) فرماتے ہیں شھر رمضان کی تقدیر عبارت ہے (آیت)” کتب علیکم شھر رمضان “ کہ تم پر رمضان کا مہینہ فرض کیا گیا ہے (گویا شھر کی پیش مفعول مالم لیم فاعلہ کی بنیاد پر ہے) شھر (مہینہ) کا نام شھر اس کی شھرۃ کی وجہ سے رکھا گیا اور رمضان کے بارے میں حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ رمضان اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے رمضان المبارک کو شھر رمضان ایسے ہی کہا جاتا ہے جس طرح اس کو شھر اللہ کہا جاتا ہے اور صحیح یہ ہے کہ رمضان مہینہ کا نام ہے ۔ اس ماہ کا نام رمضان اس لیے رکھا گیا کہ یہ رمضاء سے مشتق ہے اور رمضاء گرم پتھر کو کہاجاتا ہے اور وہ (اہل عرب) اس ماہ کے روزے سخت گرمی میں رکھتے تھے اور حرارت (دھوپ) کی وجہ سے پتھر گرم ہوجاتے تھے ۔ (آیت)” الذی انزل فیہ القرآن “ قرآن کو قراۃ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ سورتوں آیات اور حروف کو جمع کرتا ہے اور اس میں قصے، اوامر ونواہی ، وعدو وعید جمع کیے گئے ، قرء کا اصل معنی جمع کرنا ہے اور کبھی ہمزہ حذف کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے قریت فی الحوض جب تو اس (حوض) میں پانی جمع کرے ، ابن کثیر نے قران راء کی زبر کے ساتھ اور ہمزہ کے بغیر پڑھا ہے اور شافعی بھی ایسے ہی پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ لفظ قرآن قراء ۃ سے نہیں بلکہ قرآن اس کتاب مقدس کا نام ہے جس طرح کہ تورات اور انجیل کتابوں کے نام ہیں ، مقسم نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت)” شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن “ کے بارے میں پوچھا گیا اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا گیا (آیت)” انا انزلناہ فی لیلۃ القدر “ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان (آیت)” انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ “ کے بارے میں پوچھا گیا (کہ ان فرامین الہی اور نزول واقعی میں کیا مطابقت ہے) حالانکہ قرآن کریم تمام مہینوں میں نازل کیا گیا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” وقرانا فرقناہ “ جواب میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ قرآن کریم لیلۃ القدر ماہ رمضان المبارک میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا میں واقع بیت العزت کی طرف ایک ہی دفعہ نازل کیا گیا پھر اس مقام سے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) تئیس (23) سال کی (طویل مدت میں) حضور ﷺ کے قلب اطہر پر تھوڑا تھوڑا لے کر نازل ہوتے رہے پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی (آیت)” فلا اقسم بمواقع النجوم “۔ داؤد بن ابی ہند فرماتے ہیں میں نے علامہ شعبی (رح) کو کہا کہ (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) (آیت)” شھر رمضان الذین انزل فیہ القرآن “ تو کیا قرآن کریم بقیہ تمام مہینوں میں نازل نہیں ہوتا رہا ؟ (پھر رمضان المبارک کی تخصیص کا کیا معنی) جواب میں علامہ شعبی (رح) نے فرمایا بالکل ایسے ہی ہے لیکن بات یہ ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ نازل شدہ ۔ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے پس اللہ تعالیٰ جس حصہ قرآن کے بارے میں چاہتے ، اسے ثابت رکھتے اور محکم رکھتے اور جو حصہ چاہتے بھلوا دیتے ، حضرت ابوذر ؓ سے روایت کی گئی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر صحیفوں کا نزول تین (3) رمضان المبارک کو ہوا اور یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ یکم رمضان المبارک کو ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کا نزول چھ (6) رمضان المبارک کو ہوا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل کا نزول تیرہ (13) رمضان المبارک کو ہوا اور حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زبور (18) اٹھارہ رمضان المبارک کو نازل ہوئی اور قرآن مجید وفرقان حمید حضور اقدس ﷺ پر چوبیس (24) رمضان المبارک کو نازل ہوا اللہ تعالیٰ (آیت)” ھدی للناس “ گمراہی سے (ہدایت ہے لوگوں کے لیے) لفظ ” ھدی “ محل نصب میں ہے قطعی طور پر کیونکہ قرآن معرفہ ہے اور ” ھدی “ نکرہ ہے لہذا ” ھدی “ (ہونے کی وجہ سے حال واقع ہوگا) (آیت)” وبینات من الھدی “ حلال و حرام اور حدودو احکام سے متعلق واضح ہدایات ودلالات ہیں (رہنمائی ہے) ” والفرقان “ حق و باطل میں فرق کرنے والا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت)” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ جو شخص گھر میں مقیم ہو اور رمضان المبارک کا مہینہ آجائے ، اہل علم نے اس شخص کے بارے میں اختلاف کیا ہے میں جو گھر میں مقیم تھا اور رمضان المبارک آگیا ، اس کے بعد اس نے سفر کیا ، چناچہ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں اس کے لیے افطار جائز ہے ، عبیدہ سلمانی ؓ بھی یہی فرماتے ہیں ان حضرات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (آیت)” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ (گویا روزہ بصورۃ ادا رکھنا اس پر فرض ہے جو پورا رمضان المبارک گھر میں موجود رہے) ” الشھر کلہ شھود “ شہر کا معنی سارا رمضان المبارک ہے اور اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور فقہاء اس طرف گئے ہیں کہ جب ماہ رمضان میں سفر شروع کیا تو اب اس کے لیے افطار جائز ہے اور آیت کا معنی ہے جو تم میں سارا مہینہ گھر میں مقیم رہے۔ وہ اس ماہ کے روزے رکھے یعنی سارے مہینہ کے روزے رکھے اور جو تم میں سارا مہینہ مقیم نہ رہے ، پس رمضان کا جو حصہ گھر میں مقیم ہوا ان دنوں کے روزے رکھے (شھود رمضان کے معنی بحالت اقامت رمضان المبارک کو پانا ہے) اس پر دلیل وہ روایت ہے جو عبداللہ بن عتبہ بن مسعود عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ ﷺ فتح مکہ والے سال مکہ شریف کی طرف رمضان المبارک میں نکلے پس آپ نے روزہ رکھا یہاں تک کہ مقام کدید تک پہنچے پھر آپ نے افطار فرمایا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی افطار کیا پس (حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) حضور ﷺ کی نئی بات کا اتباع فرماتے تھے ۔ (آیت)” ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر “ مرض اور سفر کے عذر کے باعث افطار (یعنی روزہ نہ رکھنا) جائز اقرار دیا ، اس کلام کا اعادہ فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ حالت سفر ومرض میں روزہ نہ رکھنے کی حکم کی سہولت ناسخ میں بھی ایسے ہی ثابت اور قائم ہے جس طرح کہ منسوخ میں قائم وثابت تھی ، اس مرض میں فقہاء و مفسرین نے اختلاف کیا جو مرض کہ روزہ نہ رکھنے کو جائز کردیتی ہے اہل ظواہر اس طرف گئے ہیں کہ ہر وہ مرض جسے عرف عام میں مرض کہا جائے افطار یعنی روزہ رکھنے کو جائز کردیتی ہے یہ ابن سیرین کا قول ہے طریق بن تمام عطاردی فرماتے ہیں کہ میں محمد بن سیرین کے پاس رمضان المبارک میں گیا تو وہ کھا رہے تھے پس فرمایا میری اس انگلی کو تکلیف ہے (اس لیے میں نے روزہ نہیں رکھا) حضرت حسن (رح) ، ابراہیم نخعی (رح) فرماتے ہیں ہیں (جو مرض روزہ کا افطار جائز کرتی ہے) وہ مرض ہے جس کے ہوتے ہوئے نماز بیٹھ کر پڑھنا جائز ہوجائے اور اکثر حضرات اس طرف گئے ہیں کہ اس مرض سے مراد وہ مرض ہے جس کے ہوتے ہوئے روزہ رکھنے سے اس کے ناقابل برداشت حد تک بڑھ جانے کا خوف ہو ، خلاصہ یہ کہ جب مرض کے ہوتے ہوئے روزہ رکھنا روز دار کو مشقت میں ڈالے تو افطار جائز ہے اور اگر مرض کی حالت میں روزہ رکھنا اور نہ رکھنا دونوں جائز ہیں ، مگر وہ جو روایت کیا گیا ہے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ عروۃ بن الزبیر (رح) اور علی بن حسین ؓ سے کہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ سفر میں روزہ جائز نہیں ہے پس جو شخص سفر میں روزہ رکھے اس پر قضاء ہے ، ان حضرات نے حضور ﷺ کے اس فرمان ” لیس من البر الصیام فی السفر “ کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں مگر یہ حکم بعد والوں کے نزدیک اس شخص کے بارے میں ہے جس کو روزہ مشقت اور تکلیف میں ڈالے ۔ پس اس کے لیے بہتر ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اس پر دلیل وہ روایت ہے جو کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ سفر میں تھے کہ آپ نے لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور ایک آدمی کو دیکھا جس پر سایہ کیا گیا تھا ، حضور ﷺ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ شخص روزہ دار ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے اور بحالت سفر روزہ رکھنا جائز ہونے کی دلیل وہ ہے جو ابو سعید ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ہم حضور اقدس ﷺ کے ہمراہ رمضان المبارک میں سفر کر رہے تھے ہم میں سے بعض حضرات روزہ دار تھے اور بعض حضرت بغیر روزہ کے تھے یعنی افطار کیے ہوئے تھے ۔ پس نہ تو روزہ دار افطار کرنے والوں پر عیب لگا رہا تھا اور نہ افطار کرنے والا روزہ داروں پر اعتراض کر رہا تھا اب دونوں (1۔ روزہ رکھنا 2۔ روزہ نہ رکھنا) میں سے افضل کیا ہے ؟ اس میں انہوں نے اختلاف کیا ، پس ایک گروہ کہتا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے سے افطار کرنا افضل ہے ۔ یہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے اور اسی طرح سعید بن مسیب ؓ اور علامہ شعبی (رح) گئے ہیں اور ایک اس طرف گئی ہے کہ روزہ رکھنا افطار یعنی روزہ نہ رکھنے سے افضل ہے ، یہ بات معاذ بن جبل ؓ اور حضرت انس ؓ سے روایت کی گئی ہے ، ابراہیم نخعی (رح) اور سعید بن جبیر (رح) نے بھی یہی کہا ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر دو (2) میں سے (روزہ رکھنا یا نہ رکھنا) جو صورت حال آسان ہو وہی افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر “ اور یہ قول مجاہد (رح) قتادہ (رح) اور عمر بن عبدالعزیز (رح) کا ہے ، (سفر میں اگر مشقت نہ ہو روزہ رکھنا آسان ہے کہ ایک معمول کے مطابق عام لوگوں کی ہمراہی میں روزہ رکھا جائے گا اگرچہ اس کی رخصت ہے بعد میں قضا کرنا مشکل ہوگی سب کھا پی رہے ہوں گے ، ایسی صورت میں روزہ رکھنا افضل ہے اور اگر روزہ رکھنا تکلیف ومشقت میں ڈالے تو نہ رکھنا افضل ہے کہ آسانی اسی میں ہے) جو شخص صبح کو مقیم ہو گھر میں اور روزہ دار ہو دن کے درمیان مسافر ہوجائے ، اکثر اہل علم فرماتے ہیں کہ اس کے لیے اس دن میں افطار کرنا یعنی روزہ توڑ دینا جائز نہیں اور ایک گروہ کہتا ہے کہ اس کے لیے افطار کرنا یعنی روزہ توڑ دینا جائز ہے ، اور یہ قول علامہ شعبی (رح) کا ہے اور یہی امام احمد (رح) فرماتے ہیں اور جو شخص مسافر ہو اور روزہ رکھ لے اس کے لیے بالاتفاق یہ جائز ہے کہ روزہ توڑ دے اور اس پر دلیل وہ روایت ہے جو ۔ حضرت جابر ؓ بیان فرماتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ ﷺ فتح مکہ والے سال مکہ مکرمہ کی طرف ماہ رمضان میں نکلے ، یہاں تک کہ آپ کراع غمیم تک پہنچے لوگوں نے بھی آپ کے ہمراہ روزہ رکھا ہوا تھا ، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا ، یا رسول اللہ ﷺ بیشک لوگوں پر روزہ گراں گزر رہا ہے ، آپ نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا ، پس آپ نے پیا اس حال میں کہ لوگ دیکھ رہے تھے (آپ کے پینے کے بعد) بعض لوگوں نے افطار کیا اور بعض حضرات روزے سے رہے ۔ چنانچہ آپ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ بےکچھ لوگ اب بھی روزہ سے ہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا ” اولئک العصاۃ “ یہ لوگ نافرمان ہیں (یعنی اپنے نبی کے علم کے خلاف کرنے والے) انہوں نے اس سفر میں اختلاف کیا (یعنی سفر کی مقدار میں) کچھ حضرات نے کہا ایک دن کا سفر (یعنی مقدار کا سفر) جسے ایک دن میں طے کیا جاسکے اور ایک جماعت اس طرح گئی ہے کہ (وہ سفر جو افطار کو جائز کرتا ہے) دو (2) دن تک کا سفر ہے اور یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے اور ایک جماعت تین (3) دن کے سفر کی طرف گئی ہے اور یہ قول سفیان ثوری (رح) اور اصحاب الرای رحمہم اللہ کا ہے ۔ (آیت)” یرید اللہ بکم الیسر “ مرض اور سفر میں روزہ کا نہ رکھنا جائز کرکے (آسانی فرمائی) (آیت)” ولا یرید بکم العسر “ ابو جعفر نے ” العسر والیسر “ پڑھا یعنی سین کی پیش کے ساتھ اور ان دو (2) لفظوں کے مثل کوئی اور لفظ ہو تو اس میں بھی ان کی قراۃ ایسی ہی ہے ، علامہ شعبی (رح) فرماتے ہیں جب کسی شخص کو شرعی اعتبار (یعنی جواز کے لحاظ) سے دو کاموں میں اختیار دیا جائے قراۃ ایسی ہی ہے ، علامہ شعبی (رح) فرماتے ہیں جب کسی شخص کو شرعی اعتبار (یعنی جواز کے لحاظ) سے دو کاموں میں اختیار دیا جائے اور وہ شخص ان دو (2) کاموں میں آسان کام کو اختیار کرے توا س آسان کام پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ۔ (آیت)” ولتکملوا العدۃ “ ابوبکر (رح) نے ” ولتکملوا “ کی میم کو شد کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی حضرات نے تخفیف کے ساتھ اور یہ قراۃ پسندیدہ و بہتر ہے (اس کی تائید) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت)” الیوم اکملت لکم دینکم “ تو ” اکملت “ بھی میم کی تخفیف کے ساتھ ہے نہ کہ شد کے ساتھ اور حرف واو جو ” ولتکملوا “ کے اندر ہے ، یہ واؤ ترتیب (عطف) کے لیے ہے اور لام ، لام ” کی “ ہے ۔ عربی میں ” کی “ تاکہ کے معنی میں آتی ہے تقریر عبارۃ ہوگی ۔ (آیت)” ویرید لکی تکملوا العدۃ “ یعنی تاکہ تم رمضان کے مہینہ کے دنوں کی گنتی (تعداد) مکمل کرو کہ جو روزے تم نے بوجہ سفر یا مرض کے رمضان المبارک میں افطار کیے ہیں ان کو بعد رمضان قضاء (ادا) کرکے رمضان کے روزوں کی تعداد پوری کرلو، اور فرمایا (آیت)” ولتکملوا العدۃ “ یعنی مہینہ کے دونوں کی تعداد ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ انتیس (29) کا ہوتا ہے تو روزہ نہ رکھو حتی کہ چاند دیکھو اور افطار (یعنی عید) نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھو اور (چاند کا معاملہ) مخفی رہے تو تیس دن کی گنتی پوری کرلو ، حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ ماہ (رمضان) سے پہلے ایک یا دو دن روزہ نہ رکھو (یعنی رمضان شریف کے بالکل متصل) مگر یہ کہ کسی شخص کی عادت روزہ کے موافق وہ دن آجائے (جو ماہ رمضان کے متصل ہو) کہ وہ پہلے اس دن کا روزہ رکھا کرتا تھا ، چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو (عید کرو) اور (اگر چاند کا معاملہ) مخفی ہوجائے (کہ چاند نظر نہ آئے تو پھر تیس چاند کی گنو پھر افطار کرو (عید کرو) ” ولتکبروا اللہ “ اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو “ علی ما ھداکم “ کہ اس نے تمہاری ماہ رمضان کے روزہ جیسے پسندیدہ عمل کی طرف رہنمائی فرمائی ۔ اور تمام مذہب والوں میں سے تم کو (اے مسلمانو ! ) اس (ماہ رمضان) کے ساتھ خاص کیا ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ” ولتکبروا اللہ “ سے مراد لیلۃ الفطر کی تکبیرات ہیں، امام شافعی (رح) ابن مسیب اور حضرت عروہ (رح) اور ابو سلمہ (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عید الفطر کی رات کی جہرا (بلند آواز سے) تکبیرات پڑھتے تھے ، عید الاضحی کی رات بھی عید الفطر کی رات کے مشابہ ہے (کہ اس رات کو بھی جہرا تکبیرات کہی جائیں) مگر جو کہ حاجی ہو کیونکہ اس کا ذکر تلبیہ یعنی ” لبیک اللھم لبیک “ کہنا ہے (آیت)” ولعلکم تشکرون “ اللہ تعالیٰ کا اس کی نعمتوں پر (شکرادا کرو) ماہ رمضان کی فضیلت اور روزہ داروں کی فضیلت کے بارے میں روایات وارد ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ حضور ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (جب رمضان داخل ہوتا ہے تو شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب ۔ رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن جکڑے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ، چناچہ دوزخ کا ایک دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، چناچہ جنت کا ایک دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا ، آواز دینے والا آواز دیتا ہے اے خیر کے چاہنے والے آگے بڑھ اور اے شر کے طلبگار بس کر اور اس کے لیے دوزخ سے آزاد ہونے والے ہوتے ہیں اور یہ معاملہ ہر رات ہوتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان شریف کے روزے از روئے ایمان ، حکم الہی کی فرمانبرداری کی بنیاد پر (بنیت ثواب) رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور رمضان المبارک میں ایمان اور (حسن نیت) فرمانبرداری کے اعتبار سے قیام (نماز میں) کرتا ہے اس کے بھی سابقہ بخشے جاتے ہیں اور لیلۃ القدر میں ایمان اور حکم الہی کے مطابق بطور امتثال امر کے قیام (نماز میں) کرتا ہے اس کے بھی سابقہ گناہ بخشے جاتے ہیں ۔ حضرت سلمان ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا اے لوگو ! تم پر ایک عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہوچکا ہے اور ایک روایت میں ” اظلکم “ کی بجائے لفظ ” اطلکم ہے (یعنی ظاء کی بجائے طاء کا حرف ہے) جو بمعنی اشرف تم پر نمودار ہوچکا ہے ۔ ’ شھر عظیم “ عظمت والا مہینہ شھر مبارک بابرکت مہینہ اس میں ایک ذی قدر رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے ، یہ وہ ماہ مبارک ہے جس کے روزوں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا اور اس کی راتوں کے قیام کو عمل قرار دیا ، جو شخص اس ماہ مبارک میں کسی بھی نفلی نیکی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے وہ ایسا کہ اس شخص نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی فرض کو ادا کیا ہو اور جس شخص نے اس ماہ مبارک میں فرض ادا کیا وہ ایسا ہے کہ اس نے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کیے ہوں اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب (ڈائریکٹ) جنت ہے اور یہ باہمی غمخواری اور دکھ بانٹنے کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں رزق بڑھا دیا جاتا ہے ، (روایت میں ہے مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے) جو شخص اس ماہ مبارک میں کسی روزہ دار کو روزہ افطار کراتا ہے یہ روزہ افطار کرانا اس کی مغفرت کا اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا سبب بن جاتا ہے اور روزہ دار کے اجر وثواب میں کمی کیے بغیر روزہ افطار کرانے والے کو بھی روزہ دار جتنا ثواب ملتا ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک شخص کو یہ وسعت حاصل نہیں کہ وہ روزہ دار کا روزہ افطار کرا سکے (یعنی پیٹ بھر کھلا سکے) حضور ﷺ نے فرمایا یہ ثواب اس شخص کے لیے بھی ہے جو روزہ دار کو دودھ کا گھونٹ پلائے ، کھجور کا دانہ کھلائے یا پانی کا گھونٹ پلائے اور جس شخص نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اس شخص کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس طرح پلائیں گے کہ اس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا اور جو شخص اس ماہ مبارک میں اپنے غلام سے کام کی تخفیف کر دے ، اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیں گے اور اس کو آگ سے آزادی بخشیں گے ، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا اور (یہ رمضان المبارک وہ) مہینہ ہے جس کا پہلا حصہ رحمت ہے دوسرا حصہ مغفرت اور اس کا آخر آگ سے آزادی ہے ، پس اس ماہ مبارک میں چار چیزوں کی کثرت اختیار کرو ، دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے اور دو ایسی ہیں جن سے تم مستغنی نہیں رہ سکتے ، بہرحال وہ دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے ، وہ ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں (یعنی کلمہ شہادت کی کثرت) اور (دوسری) یہ کہ تم اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو اور وہ دو چیزیں جن کے سوا تمہیں کوئی چارہ کار نہیں وہ یہ کہ تم جنت کا سوال کرو یعنی اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور (دوسری) یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کی دوزخ سے پناہ حاصل کرو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ ابن آدم کا ہر عمل دس گنا تک بڑھایا جاتا ہے حتی کہ سات سو گنا تک بھی بڑھا دیا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مگر روزہ پس تحقیق وہ (روزہ) میرے لیے ہے اور اس کی جزا بھی میں ہی دوں گا ، روزہ دار میری (رضا کی) خاطر اپنا کھانا پینا اور خواہش کو چھوڑتا ہے ، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اس کو بوقت افطار حاصل ہوتی ہے اور ایک خوشی اس کو (روز قیامت) اپنے رب سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی اور البتہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ (محبوب) ہے روزہ ڈھال ہے (دنیامیں گناہوں سے اور آخرت میں عذاب سے) اور جس دن تم میں سے کسی کو روزہ ہو تو نہ تو فحش بیانی کرے اور نہ (اللہ کی) نافرمانی کرے ، پس اگر کوئی اس سے بدزبانی کرے یا لڑائی جھگڑا کرے پس کہہ دے میں روزہ دار آدمی ہوں ۔ حضرت سہل بن سعد ؓ حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، حضور ﷺ نے فرمایا جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے اس میں روزہ داروں کے سوا اور کوئی داخل نہ ہوگا ۔ حضرت عبداللہ ؓ حضور نبی کریم ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ روزے اور قرآن پاک بندہ کی شفاعت کریں گے ، روزے کہیں گے اے رب ! میں نے اس کو کھانے پینے اور خواہشات سے دن کو روکا پس اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما قرآن کریم کہے گا اے رب ! میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روکا پس اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔
Top