Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ
: مہینہ
رَمَضَانَ
: رمضان
الَّذِيْٓ
: جس
اُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
فِيْهِ
: اس میں
الْقُرْاٰنُ
: قرآن
ھُدًى
: ہدایت
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَ بَيِّنٰتٍ
: اور روشن دلیلیں
مِّنَ
: سے
الْهُدٰى
: ہدایت
وَالْفُرْقَانِ
: اور فرقان
فَمَنْ
: پس جو
شَهِدَ
: پائے
مِنْكُمُ
: تم میں سے
الشَّهْرَ
: مہینہ
فَلْيَصُمْهُ
: چاہیے کہ روزے رکھے
وَمَنْ
: اور جو
كَانَ
: ہو
مَرِيْضًا
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر
سَفَرٍ
: سفر
فَعِدَّةٌ
: تو گنتی پوری کرے
مِّنْ
: سے
اَيَّامٍ اُخَرَ
: بعد کے دن
يُرِيْدُ
: چاہتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
بِكُمُ
: تمہارے لیے
الْيُسْرَ
: آسانی
وَلَا يُرِيْدُ
: اور نہیں چاہتا
بِكُمُ
: تمہارے لیے
الْعُسْرَ
: تنگی
وَلِتُكْمِلُوا
: اور تاکہ تم پوری کرو
الْعِدَّةَ
: گنتی
وَلِتُكَبِّرُوا
: اور اگر تم بڑائی کرو
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي
: پر
مَا ھَدٰىكُمْ
: جو تمہیں ہدایت دی
وَلَعَلَّكُمْ
: اور تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: شکر کرو
(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو (حق وباطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو
(تفسیر) 185۔: (آیت)” شہر رمضان “ شھر کی پیش ہو شھر رمضان “ کے معنی پر ہے (گویا شہر رمضان مبتدا مخذوف کی خبر ہے) کسائی (رح) فرماتے ہیں شھر رمضان کی تقدیر عبارت ہے (آیت)” کتب علیکم شھر رمضان “ کہ تم پر رمضان کا مہینہ فرض کیا گیا ہے (گویا شھر کی پیش مفعول مالم لیم فاعلہ کی بنیاد پر ہے) شھر (مہینہ) کا نام شھر اس کی شھرۃ کی وجہ سے رکھا گیا اور رمضان کے بارے میں حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ رمضان اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے رمضان المبارک کو شھر رمضان ایسے ہی کہا جاتا ہے جس طرح اس کو شھر اللہ کہا جاتا ہے اور صحیح یہ ہے کہ رمضان مہینہ کا نام ہے ۔ اس ماہ کا نام رمضان اس لیے رکھا گیا کہ یہ رمضاء سے مشتق ہے اور رمضاء گرم پتھر کو کہاجاتا ہے اور وہ (اہل عرب) اس ماہ کے روزے سخت گرمی میں رکھتے تھے اور حرارت (دھوپ) کی وجہ سے پتھر گرم ہوجاتے تھے ۔ (آیت)” الذی انزل فیہ القرآن “ قرآن کو قراۃ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ سورتوں آیات اور حروف کو جمع کرتا ہے اور اس میں قصے، اوامر ونواہی ، وعدو وعید جمع کیے گئے ، قرء کا اصل معنی جمع کرنا ہے اور کبھی ہمزہ حذف کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے قریت فی الحوض جب تو اس (حوض) میں پانی جمع کرے ، ابن کثیر نے قران راء کی زبر کے ساتھ اور ہمزہ کے بغیر پڑھا ہے اور شافعی بھی ایسے ہی پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ لفظ قرآن قراء ۃ سے نہیں بلکہ قرآن اس کتاب مقدس کا نام ہے جس طرح کہ تورات اور انجیل کتابوں کے نام ہیں ، مقسم نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت)” شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن “ کے بارے میں پوچھا گیا اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا گیا (آیت)” انا انزلناہ فی لیلۃ القدر “ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان (آیت)” انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ “ کے بارے میں پوچھا گیا (کہ ان فرامین الہی اور نزول واقعی میں کیا مطابقت ہے) حالانکہ قرآن کریم تمام مہینوں میں نازل کیا گیا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” وقرانا فرقناہ “ جواب میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ قرآن کریم لیلۃ القدر ماہ رمضان المبارک میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا میں واقع بیت العزت کی طرف ایک ہی دفعہ نازل کیا گیا پھر اس مقام سے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) تئیس (23) سال کی (طویل مدت میں) حضور ﷺ کے قلب اطہر پر تھوڑا تھوڑا لے کر نازل ہوتے رہے پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی (آیت)” فلا اقسم بمواقع النجوم “۔ داؤد بن ابی ہند فرماتے ہیں میں نے علامہ شعبی (رح) کو کہا کہ (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) (آیت)” شھر رمضان الذین انزل فیہ القرآن “ تو کیا قرآن کریم بقیہ تمام مہینوں میں نازل نہیں ہوتا رہا ؟ (پھر رمضان المبارک کی تخصیص کا کیا معنی) جواب میں علامہ شعبی (رح) نے فرمایا بالکل ایسے ہی ہے لیکن بات یہ ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ نازل شدہ ۔ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے پس اللہ تعالیٰ جس حصہ قرآن کے بارے میں چاہتے ، اسے ثابت رکھتے اور محکم رکھتے اور جو حصہ چاہتے بھلوا دیتے ، حضرت ابوذر ؓ سے روایت کی گئی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر صحیفوں کا نزول تین (3) رمضان المبارک کو ہوا اور یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ یکم رمضان المبارک کو ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کا نزول چھ (6) رمضان المبارک کو ہوا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل کا نزول تیرہ (13) رمضان المبارک کو ہوا اور حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زبور (18) اٹھارہ رمضان المبارک کو نازل ہوئی اور قرآن مجید وفرقان حمید حضور اقدس ﷺ پر چوبیس (24) رمضان المبارک کو نازل ہوا اللہ تعالیٰ (آیت)” ھدی للناس “ گمراہی سے (ہدایت ہے لوگوں کے لیے) لفظ ” ھدی “ محل نصب میں ہے قطعی طور پر کیونکہ قرآن معرفہ ہے اور ” ھدی “ نکرہ ہے لہذا ” ھدی “ (ہونے کی وجہ سے حال واقع ہوگا) (آیت)” وبینات من الھدی “ حلال و حرام اور حدودو احکام سے متعلق واضح ہدایات ودلالات ہیں (رہنمائی ہے) ” والفرقان “ حق و باطل میں فرق کرنے والا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت)” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ جو شخص گھر میں مقیم ہو اور رمضان المبارک کا مہینہ آجائے ، اہل علم نے اس شخص کے بارے میں اختلاف کیا ہے میں جو گھر میں مقیم تھا اور رمضان المبارک آگیا ، اس کے بعد اس نے سفر کیا ، چناچہ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں اس کے لیے افطار جائز ہے ، عبیدہ سلمانی ؓ بھی یہی فرماتے ہیں ان حضرات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (آیت)” فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ “ (گویا روزہ بصورۃ ادا رکھنا اس پر فرض ہے جو پورا رمضان المبارک گھر میں موجود رہے) ” الشھر کلہ شھود “ شہر کا معنی سارا رمضان المبارک ہے اور اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور فقہاء اس طرف گئے ہیں کہ جب ماہ رمضان میں سفر شروع کیا تو اب اس کے لیے افطار جائز ہے اور آیت کا معنی ہے جو تم میں سارا مہینہ گھر میں مقیم رہے۔ وہ اس ماہ کے روزے رکھے یعنی سارے مہینہ کے روزے رکھے اور جو تم میں سارا مہینہ مقیم نہ رہے ، پس رمضان کا جو حصہ گھر میں مقیم ہوا ان دنوں کے روزے رکھے (شھود رمضان کے معنی بحالت اقامت رمضان المبارک کو پانا ہے) اس پر دلیل وہ روایت ہے جو عبداللہ بن عتبہ بن مسعود عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ ﷺ فتح مکہ والے سال مکہ شریف کی طرف رمضان المبارک میں نکلے پس آپ نے روزہ رکھا یہاں تک کہ مقام کدید تک پہنچے پھر آپ نے افطار فرمایا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی افطار کیا پس (حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) حضور ﷺ کی نئی بات کا اتباع فرماتے تھے ۔ (آیت)” ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر “ مرض اور سفر کے عذر کے باعث افطار (یعنی روزہ نہ رکھنا) جائز اقرار دیا ، اس کلام کا اعادہ فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ حالت سفر ومرض میں روزہ نہ رکھنے کی حکم کی سہولت ناسخ میں بھی ایسے ہی ثابت اور قائم ہے جس طرح کہ منسوخ میں قائم وثابت تھی ، اس مرض میں فقہاء و مفسرین نے اختلاف کیا جو مرض کہ روزہ نہ رکھنے کو جائز کردیتی ہے اہل ظواہر اس طرف گئے ہیں کہ ہر وہ مرض جسے عرف عام میں مرض کہا جائے افطار یعنی روزہ رکھنے کو جائز کردیتی ہے یہ ابن سیرین کا قول ہے طریق بن تمام عطاردی فرماتے ہیں کہ میں محمد بن سیرین کے پاس رمضان المبارک میں گیا تو وہ کھا رہے تھے پس فرمایا میری اس انگلی کو تکلیف ہے (اس لیے میں نے روزہ نہیں رکھا) حضرت حسن (رح) ، ابراہیم نخعی (رح) فرماتے ہیں ہیں (جو مرض روزہ کا افطار جائز کرتی ہے) وہ مرض ہے جس کے ہوتے ہوئے نماز بیٹھ کر پڑھنا جائز ہوجائے اور اکثر حضرات اس طرف گئے ہیں کہ اس مرض سے مراد وہ مرض ہے جس کے ہوتے ہوئے روزہ رکھنے سے اس کے ناقابل برداشت حد تک بڑھ جانے کا خوف ہو ، خلاصہ یہ کہ جب مرض کے ہوتے ہوئے روزہ رکھنا روز دار کو مشقت میں ڈالے تو افطار جائز ہے اور اگر مرض کی حالت میں روزہ رکھنا اور نہ رکھنا دونوں جائز ہیں ، مگر وہ جو روایت کیا گیا ہے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ عروۃ بن الزبیر (رح) اور علی بن حسین ؓ سے کہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ سفر میں روزہ جائز نہیں ہے پس جو شخص سفر میں روزہ رکھے اس پر قضاء ہے ، ان حضرات نے حضور ﷺ کے اس فرمان ” لیس من البر الصیام فی السفر “ کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں مگر یہ حکم بعد والوں کے نزدیک اس شخص کے بارے میں ہے جس کو روزہ مشقت اور تکلیف میں ڈالے ۔ پس اس کے لیے بہتر ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اس پر دلیل وہ روایت ہے جو کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ سفر میں تھے کہ آپ نے لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور ایک آدمی کو دیکھا جس پر سایہ کیا گیا تھا ، حضور ﷺ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ شخص روزہ دار ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے اور بحالت سفر روزہ رکھنا جائز ہونے کی دلیل وہ ہے جو ابو سعید ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ہم حضور اقدس ﷺ کے ہمراہ رمضان المبارک میں سفر کر رہے تھے ہم میں سے بعض حضرات روزہ دار تھے اور بعض حضرت بغیر روزہ کے تھے یعنی افطار کیے ہوئے تھے ۔ پس نہ تو روزہ دار افطار کرنے والوں پر عیب لگا رہا تھا اور نہ افطار کرنے والا روزہ داروں پر اعتراض کر رہا تھا اب دونوں (1۔ روزہ رکھنا 2۔ روزہ نہ رکھنا) میں سے افضل کیا ہے ؟ اس میں انہوں نے اختلاف کیا ، پس ایک گروہ کہتا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے سے افطار کرنا افضل ہے ۔ یہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے اور اسی طرح سعید بن مسیب ؓ اور علامہ شعبی (رح) گئے ہیں اور ایک اس طرف گئی ہے کہ روزہ رکھنا افطار یعنی روزہ نہ رکھنے سے افضل ہے ، یہ بات معاذ بن جبل ؓ اور حضرت انس ؓ سے روایت کی گئی ہے ، ابراہیم نخعی (رح) اور سعید بن جبیر (رح) نے بھی یہی کہا ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر دو (2) میں سے (روزہ رکھنا یا نہ رکھنا) جو صورت حال آسان ہو وہی افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر “ اور یہ قول مجاہد (رح) قتادہ (رح) اور عمر بن عبدالعزیز (رح) کا ہے ، (سفر میں اگر مشقت نہ ہو روزہ رکھنا آسان ہے کہ ایک معمول کے مطابق عام لوگوں کی ہمراہی میں روزہ رکھا جائے گا اگرچہ اس کی رخصت ہے بعد میں قضا کرنا مشکل ہوگی سب کھا پی رہے ہوں گے ، ایسی صورت میں روزہ رکھنا افضل ہے اور اگر روزہ رکھنا تکلیف ومشقت میں ڈالے تو نہ رکھنا افضل ہے کہ آسانی اسی میں ہے) جو شخص صبح کو مقیم ہو گھر میں اور روزہ دار ہو دن کے درمیان مسافر ہوجائے ، اکثر اہل علم فرماتے ہیں کہ اس کے لیے اس دن میں افطار کرنا یعنی روزہ توڑ دینا جائز نہیں اور ایک گروہ کہتا ہے کہ اس کے لیے افطار کرنا یعنی روزہ توڑ دینا جائز ہے ، اور یہ قول علامہ شعبی (رح) کا ہے اور یہی امام احمد (رح) فرماتے ہیں اور جو شخص مسافر ہو اور روزہ رکھ لے اس کے لیے بالاتفاق یہ جائز ہے کہ روزہ توڑ دے اور اس پر دلیل وہ روایت ہے جو ۔ حضرت جابر ؓ بیان فرماتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ ﷺ فتح مکہ والے سال مکہ مکرمہ کی طرف ماہ رمضان میں نکلے ، یہاں تک کہ آپ کراع غمیم تک پہنچے لوگوں نے بھی آپ کے ہمراہ روزہ رکھا ہوا تھا ، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا ، یا رسول اللہ ﷺ بیشک لوگوں پر روزہ گراں گزر رہا ہے ، آپ نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا ، پس آپ نے پیا اس حال میں کہ لوگ دیکھ رہے تھے (آپ کے پینے کے بعد) بعض لوگوں نے افطار کیا اور بعض حضرات روزے سے رہے ۔ چنانچہ آپ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ بےکچھ لوگ اب بھی روزہ سے ہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا ” اولئک العصاۃ “ یہ لوگ نافرمان ہیں (یعنی اپنے نبی کے علم کے خلاف کرنے والے) انہوں نے اس سفر میں اختلاف کیا (یعنی سفر کی مقدار میں) کچھ حضرات نے کہا ایک دن کا سفر (یعنی مقدار کا سفر) جسے ایک دن میں طے کیا جاسکے اور ایک جماعت اس طرح گئی ہے کہ (وہ سفر جو افطار کو جائز کرتا ہے) دو (2) دن تک کا سفر ہے اور یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے اور ایک جماعت تین (3) دن کے سفر کی طرف گئی ہے اور یہ قول سفیان ثوری (رح) اور اصحاب الرای رحمہم اللہ کا ہے ۔ (آیت)” یرید اللہ بکم الیسر “ مرض اور سفر میں روزہ کا نہ رکھنا جائز کرکے (آسانی فرمائی) (آیت)” ولا یرید بکم العسر “ ابو جعفر نے ” العسر والیسر “ پڑھا یعنی سین کی پیش کے ساتھ اور ان دو (2) لفظوں کے مثل کوئی اور لفظ ہو تو اس میں بھی ان کی قراۃ ایسی ہی ہے ، علامہ شعبی (رح) فرماتے ہیں جب کسی شخص کو شرعی اعتبار (یعنی جواز کے لحاظ) سے دو کاموں میں اختیار دیا جائے قراۃ ایسی ہی ہے ، علامہ شعبی (رح) فرماتے ہیں جب کسی شخص کو شرعی اعتبار (یعنی جواز کے لحاظ) سے دو کاموں میں اختیار دیا جائے اور وہ شخص ان دو (2) کاموں میں آسان کام کو اختیار کرے توا س آسان کام پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ۔ (آیت)” ولتکملوا العدۃ “ ابوبکر (رح) نے ” ولتکملوا “ کی میم کو شد کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی حضرات نے تخفیف کے ساتھ اور یہ قراۃ پسندیدہ و بہتر ہے (اس کی تائید) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت)” الیوم اکملت لکم دینکم “ تو ” اکملت “ بھی میم کی تخفیف کے ساتھ ہے نہ کہ شد کے ساتھ اور حرف واو جو ” ولتکملوا “ کے اندر ہے ، یہ واؤ ترتیب (عطف) کے لیے ہے اور لام ، لام ” کی “ ہے ۔ عربی میں ” کی “ تاکہ کے معنی میں آتی ہے تقریر عبارۃ ہوگی ۔ (آیت)” ویرید لکی تکملوا العدۃ “ یعنی تاکہ تم رمضان کے مہینہ کے دنوں کی گنتی (تعداد) مکمل کرو کہ جو روزے تم نے بوجہ سفر یا مرض کے رمضان المبارک میں افطار کیے ہیں ان کو بعد رمضان قضاء (ادا) کرکے رمضان کے روزوں کی تعداد پوری کرلو، اور فرمایا (آیت)” ولتکملوا العدۃ “ یعنی مہینہ کے دونوں کی تعداد ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ انتیس (29) کا ہوتا ہے تو روزہ نہ رکھو حتی کہ چاند دیکھو اور افطار (یعنی عید) نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھو اور (چاند کا معاملہ) مخفی رہے تو تیس دن کی گنتی پوری کرلو ، حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ ماہ (رمضان) سے پہلے ایک یا دو دن روزہ نہ رکھو (یعنی رمضان شریف کے بالکل متصل) مگر یہ کہ کسی شخص کی عادت روزہ کے موافق وہ دن آجائے (جو ماہ رمضان کے متصل ہو) کہ وہ پہلے اس دن کا روزہ رکھا کرتا تھا ، چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو (عید کرو) اور (اگر چاند کا معاملہ) مخفی ہوجائے (کہ چاند نظر نہ آئے تو پھر تیس چاند کی گنو پھر افطار کرو (عید کرو) ” ولتکبروا اللہ “ اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو “ علی ما ھداکم “ کہ اس نے تمہاری ماہ رمضان کے روزہ جیسے پسندیدہ عمل کی طرف رہنمائی فرمائی ۔ اور تمام مذہب والوں میں سے تم کو (اے مسلمانو ! ) اس (ماہ رمضان) کے ساتھ خاص کیا ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ” ولتکبروا اللہ “ سے مراد لیلۃ الفطر کی تکبیرات ہیں، امام شافعی (رح) ابن مسیب اور حضرت عروہ (رح) اور ابو سلمہ (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عید الفطر کی رات کی جہرا (بلند آواز سے) تکبیرات پڑھتے تھے ، عید الاضحی کی رات بھی عید الفطر کی رات کے مشابہ ہے (کہ اس رات کو بھی جہرا تکبیرات کہی جائیں) مگر جو کہ حاجی ہو کیونکہ اس کا ذکر تلبیہ یعنی ” لبیک اللھم لبیک “ کہنا ہے (آیت)” ولعلکم تشکرون “ اللہ تعالیٰ کا اس کی نعمتوں پر (شکرادا کرو) ماہ رمضان کی فضیلت اور روزہ داروں کی فضیلت کے بارے میں روایات وارد ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ حضور ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (جب رمضان داخل ہوتا ہے تو شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب ۔ رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن جکڑے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ، چناچہ دوزخ کا ایک دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، چناچہ جنت کا ایک دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا ، آواز دینے والا آواز دیتا ہے اے خیر کے چاہنے والے آگے بڑھ اور اے شر کے طلبگار بس کر اور اس کے لیے دوزخ سے آزاد ہونے والے ہوتے ہیں اور یہ معاملہ ہر رات ہوتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان شریف کے روزے از روئے ایمان ، حکم الہی کی فرمانبرداری کی بنیاد پر (بنیت ثواب) رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور رمضان المبارک میں ایمان اور (حسن نیت) فرمانبرداری کے اعتبار سے قیام (نماز میں) کرتا ہے اس کے بھی سابقہ بخشے جاتے ہیں اور لیلۃ القدر میں ایمان اور حکم الہی کے مطابق بطور امتثال امر کے قیام (نماز میں) کرتا ہے اس کے بھی سابقہ گناہ بخشے جاتے ہیں ۔ حضرت سلمان ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا اے لوگو ! تم پر ایک عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہوچکا ہے اور ایک روایت میں ” اظلکم “ کی بجائے لفظ ” اطلکم ہے (یعنی ظاء کی بجائے طاء کا حرف ہے) جو بمعنی اشرف تم پر نمودار ہوچکا ہے ۔ ’ شھر عظیم “ عظمت والا مہینہ شھر مبارک بابرکت مہینہ اس میں ایک ذی قدر رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے ، یہ وہ ماہ مبارک ہے جس کے روزوں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا اور اس کی راتوں کے قیام کو عمل قرار دیا ، جو شخص اس ماہ مبارک میں کسی بھی نفلی نیکی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے وہ ایسا کہ اس شخص نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی فرض کو ادا کیا ہو اور جس شخص نے اس ماہ مبارک میں فرض ادا کیا وہ ایسا ہے کہ اس نے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کیے ہوں اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب (ڈائریکٹ) جنت ہے اور یہ باہمی غمخواری اور دکھ بانٹنے کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں رزق بڑھا دیا جاتا ہے ، (روایت میں ہے مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے) جو شخص اس ماہ مبارک میں کسی روزہ دار کو روزہ افطار کراتا ہے یہ روزہ افطار کرانا اس کی مغفرت کا اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا سبب بن جاتا ہے اور روزہ دار کے اجر وثواب میں کمی کیے بغیر روزہ افطار کرانے والے کو بھی روزہ دار جتنا ثواب ملتا ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک شخص کو یہ وسعت حاصل نہیں کہ وہ روزہ دار کا روزہ افطار کرا سکے (یعنی پیٹ بھر کھلا سکے) حضور ﷺ نے فرمایا یہ ثواب اس شخص کے لیے بھی ہے جو روزہ دار کو دودھ کا گھونٹ پلائے ، کھجور کا دانہ کھلائے یا پانی کا گھونٹ پلائے اور جس شخص نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اس شخص کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس طرح پلائیں گے کہ اس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا اور جو شخص اس ماہ مبارک میں اپنے غلام سے کام کی تخفیف کر دے ، اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیں گے اور اس کو آگ سے آزادی بخشیں گے ، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا اور (یہ رمضان المبارک وہ) مہینہ ہے جس کا پہلا حصہ رحمت ہے دوسرا حصہ مغفرت اور اس کا آخر آگ سے آزادی ہے ، پس اس ماہ مبارک میں چار چیزوں کی کثرت اختیار کرو ، دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے اور دو ایسی ہیں جن سے تم مستغنی نہیں رہ سکتے ، بہرحال وہ دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے ، وہ ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں (یعنی کلمہ شہادت کی کثرت) اور (دوسری) یہ کہ تم اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو اور وہ دو چیزیں جن کے سوا تمہیں کوئی چارہ کار نہیں وہ یہ کہ تم جنت کا سوال کرو یعنی اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور (دوسری) یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کی دوزخ سے پناہ حاصل کرو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ ابن آدم کا ہر عمل دس گنا تک بڑھایا جاتا ہے حتی کہ سات سو گنا تک بھی بڑھا دیا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مگر روزہ پس تحقیق وہ (روزہ) میرے لیے ہے اور اس کی جزا بھی میں ہی دوں گا ، روزہ دار میری (رضا کی) خاطر اپنا کھانا پینا اور خواہش کو چھوڑتا ہے ، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اس کو بوقت افطار حاصل ہوتی ہے اور ایک خوشی اس کو (روز قیامت) اپنے رب سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی اور البتہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ (محبوب) ہے روزہ ڈھال ہے (دنیامیں گناہوں سے اور آخرت میں عذاب سے) اور جس دن تم میں سے کسی کو روزہ ہو تو نہ تو فحش بیانی کرے اور نہ (اللہ کی) نافرمانی کرے ، پس اگر کوئی اس سے بدزبانی کرے یا لڑائی جھگڑا کرے پس کہہ دے میں روزہ دار آدمی ہوں ۔ حضرت سہل بن سعد ؓ حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، حضور ﷺ نے فرمایا جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے اس میں روزہ داروں کے سوا اور کوئی داخل نہ ہوگا ۔ حضرت عبداللہ ؓ حضور نبی کریم ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ روزے اور قرآن پاک بندہ کی شفاعت کریں گے ، روزے کہیں گے اے رب ! میں نے اس کو کھانے پینے اور خواہشات سے دن کو روکا پس اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما قرآن کریم کہے گا اے رب ! میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روکا پس اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔
Top