Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 57
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ١ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا
اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ الَّذِيْنَ : جنہیں يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں يَبْتَغُوْنَ : ڈھونڈتے ہیں اِلٰى : طرف رَبِّهِمُ : اپنا رب الْوَسِيْلَةَ : وسیلہ اَيُّهُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ : زیادہ قریب وَيَرْجُوْنَ : اور وہ امید رکھتے ہیں رَحْمَتَهٗ : اس کی رحمت وَيَخَافُوْنَ : اور ڈرتے ہیں عَذَابَهٗ : اس کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَ : عذاب رَبِّكَ : تیرا رب كَانَ : ہے مَحْذُوْرًا : ڈر کی بات
یہ لوگ جن کو (خدا کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (خدا کا) زیادہ مقرب (ہوتا) ہے اور اسکی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اسکے عذاب سے خوف رکھتے ہیں بیشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔
57۔” اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربھم الوسیلۃ “ وہ معبود ان باطلہ جن کو مشرکین مکہ پکارتے ہیں کہ وہی ” الھۃ “ ہیں ان کی عبادت کرتے ہیں۔ ابن عباس ؓ اور مجاہد کا قول ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ یا اس سے حضرت عزیر (علیہ السلام) اور فرشتے ہیں ۔ سورج ، چاند ، ستارے یہ سب اپنے رب کی قربت کو تلاش کرتے ہیں ۔ بعض نے کہا کہ یہاں وسیلہ سے مراددرجہ ہے وہ اللہ کے آگے عاجزی اختیار کرتے ہیں ، بلند درجہ حاصل کرنے کی غرض سے۔ بعض نے کہا کہ وسیلہ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنے۔” ایھم اقرب “ وہ دیکھتے ہیں کہ کون اللہ کے زیادہ قریب ہے جس سے وہ توسل اختیار کرتے ہیں ۔ زجاج کا قول ہے کہ ان میں سے جو اعال صالحہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے ، اس سے وسیلہ پکڑتے ہیں۔” ویرجون رحمتہ “ رحمت سے مراد جنت ہے ( کہ وہ اس کی جنت کی امید رکھتے ہیں) ” ویخافون عذابہ ان عذاب ربک کان محذورا ً “ ان سے ڈرنا چاہیے۔ عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ عرب کا ایک گروہ جنوں کے گروہ کے ساتھ عبادت کرتے تھے ، جن اسلام لے آئے ، انسانوں کو ان کے اسلام لانے کا علم نہیں ہوا ، جن کے ساتھ مل کر وہ عبادت کرتے تھے ، وہ ان کی عبادت کرنے سے رک گئے ، اللہ نے ان کو عار دلائی ، ان پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ابن مسعود ؓ نے ” الذین تدعون “ تاء کے ساتھ پڑھا ہے۔
Top