Tafseer-e-Baghwi - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔
26۔” ولقد خلقنا الانسان “ اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں ۔ یہاں انسان سے اس لیے تعبیر کیا اس کا معنی ہے ظہور اور انسان ظاہر ہے ، آنکھ سے دکھائی دیتا ہے اور بعض نے کہا کہ انسان نسیان سے مشتق ہے کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو ایک حکم دیا گیا تھا مگر وہ اس کو بھول گئے۔ ” من صلصال “ وہ خشک مٹی جو آگ میں نہ پکائی گئی ہو اور کھن کھن بولتی ہو۔ صلصال کی تشریح ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ وہ عمدہ پاکیزہ کیچڑ ہے جس میں پانی سوکھ جانے کی وجہ سے شگاپیدا ہوجاتے ہیں اور جب اس کو ہلایا جاتا ہے تو کھڑکھڑ کی آواز دیتی ہے۔ مجاہد (رح) کا قول ہے کہ بدبو دار کیچڑ کو ” صلصال “ کہتے ہیں ۔ کسائی نے اسی کو اختیار کیا ہے، بعض نے کہا کہ ” صلصال “ کہتے ہیں ” صل اللحم “ گوشت بدبودار ہوگیا۔ ” من حما “ وہ کیچڑ جو پانی کے قریب ہونے کی وجہ سے کالی پڑجائے۔ ’ ’ مسنون “ متغیر کردینے کو کہتے ہیں۔ مجاہد اور قتادہ رحمہما اللہ کا قول ہے اس سے خراب ، بدبو دار ہے ۔ ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس کا معنی ہے بہانا ۔ جیسا کہ عرب کا قول ہے ” سننت المائ “ پانی بہایا ۔ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اس سے وہ بدبو دار کیچڑ ہے جو خشک ہونے کے بعد کھن کھن کرنے لگے اور بعض احادیث میں آیا ہے کہ اللہ رب العزت نے سب سے پہلے مٹی کا گارا تیار کروایا اور اس کو چھوڑے رکھا۔ یہاں تک کہ وہ بدل کر کالا ہوگیا ، پھر اس سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو بنایا۔
Top