Tafseer-e-Baghwi - Al-Hijr : 22
وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسْقَیْنٰكُمُوْهُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِیْنَ
وَاَرْسَلْنَا : اور ہم نے بھیجیں الرِّيٰحَ : ہوائیں لَوَاقِحَ : بھری ہوئی فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ : پھر ہم نے وہ تمہیں پلایا وَمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم لَهٗ : اس کے بِخٰزِنِيْنَ : خزانہ کرنے والے
اور ہم ہی ہوائیں چلاتے ہیں (جو بادلوں کے پانی سے) بھری ہوئی (ہوتی ہیں) اور ہم ہی آسمان سے مینہ برساتے ہیں اور ہم ہی تم کا اسکا پانی پلاتے ہیں اور تم تو اس کا خزانہ نہیں رکھتے۔
22۔” وارسلنا الریاح لواقع “ اس سے مراد حاملہ ہیں کیونکہ ہوائیں بادلوں میں پانی کو بھر دیتی ہیں ۔ یہ ” لا قحۃ “ کی جمع ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ” ناقۃ لاقحۃ “ اس اونٹنی کے لیے بولا جاتا ہے جو حاملہ ہو۔ ابن مسعود ؓ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ ہوائوں کو بھیجتا ہے ہوا پانی کو اٹھا کر لاتی ہے بادل پانی کو لے کر ہوا کی وجہ سے چلتا ہے، پھر وہ بارش برساتا ہے۔ ابو عبیدہ کا قول ہے لواقح کا معنی ہے ملا قح اور اس کا مفرد ” ملقحۃ “ آتا ہے ۔ بمعنی حاملہ کرنے والی ہوائیں یعنی وہ ہوائیں جو پھلوں کے تخم درختوں میں ڈالتی ہیں اور ان کو حاملہ کرتی ہیں۔ ہوائیں بھی اپنا اپنا کام سر انجام دیتی ہیں عبید بن عمیر کا قول ہے کہ پہلے اللہ خوشخبری دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے جو زمین کو صاف کردیتا ہے ، پھر بادلوں کو اٹھا کر لانے والی ہوائیں بھیجتا ہے جو بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں ۔ پھر منتشر بادلوں کو یکجا کرنے والی ہوائیں بھیجتا ہے جو ابر کے مختلف ٹکڑوں کو یکجا کر کے تہ بہ تہ کردیتی ہیں ۔ پھر حاملہ کرنے والی ہوائیں بھیجتا ہے جو درختوں میں پھل پیدا کردیتی ہیں ۔ ابوبکر بن عیاش نے کہا جب تک چاروں ہوائیں اپنا اپنا عمل پورا نہیں کرتیں کوئی قطرہ نہیں اترتا ، سامنے والی ہوائیں بادل کو اٹھا کر لاتی ہے ، شمالی ہوا بادل کو جمع کرتی ہے، جنوبی ہوا بادل کو برساتی ہے اور پچھلی ہوا بادلوں کو منتشر کردیتی ہے اور بعض روایات میں آتا ہے کہ جب جنوبی ہوا چلتی ہے انگور کے خوشے اٹھا کر لاتی ہے اور ریح عقیم عذاب کو لاتی ہے پھل پیدا نہیں کرتی۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب کوئی تیز ہوا چلتی تھی رسول اللہ ﷺ فوراً دوزانو بیٹھ کر دعا کرتے تھے ، اے اللہ ! اس کو رحمت بنا دے ، عذاب نہ بنا ، اے اللہ ! اس کو رحمت کی ہوائیں کر دے ، عذاب کی آندھی نہ کردینا ۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کی کتاب میں ارشاد ہے ” فارسلنا علیھم ریحا ً صرصراً “ اور ” اذ ارسلنا علیھم الریح العقیم “ اور ” ارسلنا الریاح لواقع “ ان آیات میں ریح سے مراد وہی ریاح ہیں جو ان میں مذکور ہیں اور فرمایا کہ خوش خبری دینے والی ہوائیں ۔ حمزہ نے اس کو مفرد پڑھا ہے۔” وارسلنا الریح لواقع “ ریح سے مراد جنس اور کثرت مراد ہے۔ اسی وجہ سے اس کو جمع بھی ذکر کرتے ہیں ، اور دوسرے قراء نے اس کو (ریاح) جمع کے ساتھ پڑھا ہے۔ وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ لواقح جمع ذکر کی ہے جو موصوف ہے اور صفت بھی جمع ہوگی نہ کہ مفرد تا کہ موصوف صفت میں مطابقت ہوجائے۔” فانزلنا من السماء ماء فاسقینا کموہ “ اس بادل کو تمہارے لیے پینے کا پانی بنایا ۔ جیسا کہ عربی محاورے میں بولا جاتا ہے۔” سقیت الرجل ماء اولبان ، اسقی فلانا ً و فلانا ً “ جب اس کو پینے کے لیے پانی دیا جائے اور ” اسقیت الرجل “ اس وقت بولا جاتا ہے معنی ہوگا کہ میں نے اس کو پانی دے دیا تا کہ وہ اپنی زمین یا جانور کو سیراب کر دے۔” وما انتم لہ بخازنین “ یعنی بارش کا خزانہ ہمارے پاس ہے تمہارے پاس نہیں۔
Top