Ashraf-ul-Hawashi - Al-Baqara : 114
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآئِفِیْنَ١ؕ۬ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ ۔ مَنَعَ : سے جو۔ روکا مَسَاجِدَ : مسجدیں اللہِ : اللہ اَنْ : کہ يُذْکَرَ : ذکر کیا جائے فِیْهَا : اس میں اسْمُهُ : اس کا نام وَسَعٰى : اور کوشش کی فِیْ : میں خَرَابِهَا : اس کی ویرانی اُولٰئِکَ : یہ لوگ مَا کَانَ : نہ تھا لَهُمْ : ان کے لئے اَنْ ۔ يَدْخُلُوْهَا : کہ۔ وہاں داخل ہوتے اِلَّا : مگر خَائِفِیْنَ : ڈرتے ہوئے لَهُمْ : ان کے لئے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ عَظِیْمٌ : بڑا عذاب
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو خدا کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے روکے اور ان کو اجاڑنا چاہے یہ لوگ خود مسجدوں میں نہ آنے پائیں گے مگر ڈرتے ڈرتے وہ دنیا میں ذلیل ہوں گے2 اور آخرت میں بڑی مار کھائیں گے3
2 ابن جریر لکھتے ہیں کہ اس سے بخت نصر اور عیسائی جنہوں نے بیت المقدس کی تخریب کی اور یہود کو اس سے روک دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یہی روایت ہے کہ عیسائیوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے محض عداوت کی بنا پر یہود کو بیت المقدس میں عبادت گزازنے سے روک دیا تھا۔ (قرطبی) مگر بخت نصر کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے 233 سال قبل کا ہے پھر دو اور ان کے مدد گا عیسائی کیسے مرادہو سکتے ہیں۔ (المنار۔ الجصاص) لہذا اس سے مراد یا تو وہ عیسائی ہوسکتے ہیں جنہوں نے نطوس یا یتطوس رومانی کے ساتھ مل کر بنی اسرائیل سے جنگ کی اور بیت المقدس کو ویران کیا اور یہ آیت مشرکین کے حق میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کو عمرہ سے روک دیا تھا جس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ ہوئی اور کسی مسجد میں لوگوں کو عبادت سے روکنا اس کو ویران کرنے کے مترادف ہے۔ (رازی۔ قرطبی) حافظ ابنالقیم لکھتے ہیں کہ آخری قول اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ مسئلہ اہل کتاب کے معبودوں کی بےحرمتی تو ممنوع ہے مگر اولیاء اور بزرگان دین کے مقابر پر جو مساجد بنی ہوئی ہیں۔ یہ چونکہ عبادات بغیر اللہ کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں اس لیے ان کا گزانا ضروری ہے جیسا کہ انحضرت ﷺ نے مسجد ضرار کو گرا دینے کا حکم دیا تھا۔ (المنار بحوالہ الزواجر لا بن حجر مکی) اس میں پیش کوئی بھی کی ہے کہ آئندہ یہ مشرک بیت اللہ (کعبہ) میں چھپ چھپا کر ہی داخل ہو سکیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا اور 9 ھ میں الا لا حیجن بعدا لعام مشرک کا اعلان کردیا گیا۔ (ابن کثیر) 3 یہاں خزی سے ہر قسم کی رسوائی مرادہو سکتی ہے اور اس رسوائی کی یہ سزا یہود و نصاری اور مشرکین تینوں گروہ پاچکے ہیں۔ (ابن کثیر )
Top