Anwar-ul-Bayan - Al-Waaqia : 66
اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَمُغْرَمُوْنَ : البتہ تاوان ڈالے گئے ہیں
(کہ ہائے) ہم تو مفت تاوان میں پھنس گئے
(56:66) انا لمغرمون : یہ جملہ اور اگلا جملہ تفکھون کے فاعل سے حال ہے۔ ای قائلین انا لمغرمون۔ لام تاکید کا ہے مغرمون اسم مفعول جمع مذکر اغرام (افعال) مصدر۔ غرم مادہ۔ تاوان زدہ۔ الغرم (مفت کا تاوان یا جرمانہ) وہ مالی نقصان جو کسی جرم یا خیانت کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے۔ انا لمغرمون (ہائے) ہم صفت کے تاوان میں پھنس گئے۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ فھو من مغرم مثقلون (52: 40) کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے۔ جو تکلیف یا مصیبت انسان کو پہنچتی ہے اسے غرام کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے ان عذابھا کان غراما (25:65) کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے۔
Top