Anwar-ul-Bayan - Al-Waaqia : 65
لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ
لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَجَعَلْنٰهُ : البتہ ہم کردیں اس کو حُطَامًا : ریزہ ریزہ فَظَلْتُمْ : تو رہ جاؤ تم تَفَكَّهُوْنَ : تم باتیں بناتے
اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ
(56:65) لونشاء لجعلنہ حطاما : لو حرف شرط نشاء مضارع جمع متکلم مشیۃ (باب فتح) مصدر۔ ہم چاہیں۔ نشاء کا مفعول محذوف ہے ای لو نشاء تحطیم ذلک الزرع اگر ہم اس کھیتی کو چورا چورا کرنا چاہیں ۔ یہ جملہ شرطیہ ہے لجعلنہ حطاما جواب شرط ہے۔ لام جواب شرط کے لئے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر الزرع کے لئے ہے۔ حطاما ریزہ ریزہ ، چورا چورا۔ روندن۔ جو چیز چورا چورا ہوکر ریزہ ریزہ ہوجائے اور روندی جانے لگے اسے حطام کہتے ہیں ۔ یہ حطم باب ضرب سے مشتق ہے۔ حطہ روندنا۔ توڑنا۔ ریزہ ریزہ کرنا۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ادخلوا مسکنکم لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ (27:18) اپنے اپنے بلوں میں داخل ہوجاؤ ایسا نہ ہو کہ (حضرت) سلیمان (علیہ السلام) اور اس کا لشکر تم کو روند ڈالے۔ اور جگہ بمعنی بھڑکائی ہوئی آگ آیا ہے جیسے :۔ وما ادرک ما الحطمۃ نار اللہ الموقدۃ التی (104:5-6) اور آپ کو کیا سمجھائے کہ الحطمۃ کیا ہے وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔ ھطاما مفعول ثانی ہے جعلنا کا۔ فظلتم : اصل ظللتم تھا۔ چونکہ دو لاموں کا اکٹھا ہونا طقیل تھا اور پھر کسرہ میں اور بھی ثقل تھا۔ تو لام اول کو ساقط کعر دیا گیا اور ظاء اپنے فتحہ پر باقی رہا۔ ظل بمعنی صرتم۔ تم ہوگئے۔ تم سارا دن لگے رہو۔ تم برابر لگے رہو۔ ظل میں اکثر دن کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسے کہ بات میں رات کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ظلتم ماضی جمع مذکر حاضر۔ ظل و ظلول (باب سمع) مصدر سے۔ تفکھون : مضارع جمع مذکر حاضر۔ تفکہ (تفعل) مصدر۔ مختلف علماء نے اس کے مختلف معانی کئے ہیں :۔ (1) بیضاوی کہتے ہیں کہ تفکہ طرح طرح کے میووں سے نقل کرنے کو کہتے ہیں۔ اور بطور استعارہ نقل مجلس کے لئے باتیں بنانے کو بھی تفکہ کہتے ہیں۔ (2) عطاء کلبی، مقاتل اور فرار نے یہاں تعجب کے معنی کئے ہیں۔ (3) مجاہد، حسن بصری، قتادہ نے اس کا ترجمہ تندمون کیا ہے یعنی تم نادم ہونے لگو۔ (4) عکرمہ نے باہم ملامت کرنے اور الاہنا دینے کے معنی کئے ہیں۔ (5) کسائی نے تصریح کی ہے کہ تفکہ مافات پر افسوس کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ لغت اضداد میں سے ہے۔ اہل عرب تفکہ کا استعمال تنعم اور عیش کوشی کے لئے بھی کرتے ہیں۔ غم اور تاسف کے لئے بھی۔ (6) حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ تفکہ بروزن تفعل ہے یہ تاثم کی طرح ہے جس کے معنی اثم کو دور کردینے یعنی گناہ سے علیحدہ ہوجانے کے ہیں۔ پس تفکہ کے معنی ہوئے اس نے ” فاکہ “ کو دور کردیا یعنی وہ میووں کے مزہ سے جدا ہوگیا۔ اور جو شخص کہ نادم و غمگین ہوتا ہے اس کا بھی ہی حال ہوتا ہے کہ وہ مزوں سے دور رہتا ہے۔ تفکھون اصل میں تتفکھون تھا ایک تاء حذف ہوگئی۔ آیت کا مطلب یہ ہے :۔ اگر ہم چاہیں کہ کھیتی کو چورا چورا بنادیں وہ نہ تمہاری خوراک بن سکے نہ تمہارے چوپایوں کا چارہ پھر تم کف افسوس ملتے رہ جاؤ۔ وقال بعض العلمائ : تفکھون بعمنی تندمون علی ما خسرتم من الانفاق علیہ کقولہ تعالیٰ فاصبح یقلب کفیہ علی ما انفق فیہا (18:42) ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ :۔ تفکھون کے معنی ہیں جو کچھ اس نے اس کھیتی پر خرچ کیا تھا اور اس کے چورا چورا ہونے پر جو وہ خرچ ضائع ہوگیا اس پر نادم ہونا اور کف افسوس ملنا۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے الآیۃ (18:42) ۔ ترجمہ :۔ جو کچھ اس نے (اپنے باغ پر) خرچ کیا تھا (اس کے ضائع ہونے پر) کف افسوس ملتا رہ گیا۔
Top