Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی سو آپ ان کی ہدایت کا اقتداء کریں۔ آپ فرما دیجیے کہ میں اس پر تم سے کسی معاوضہ کا سوال نہیں کرتا یہ تو صرف نصیحت ہے جہانوں کے لیے
پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰیھُمُ اقْتَدِہْ ) یہ وہ حضرات ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی۔ سو آپ ان کی ہدات کا اتباع کریں۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اصول ایمان یعنی توحید اور ایمان بالملائکہ اور ایمان بِکِتٰبِ اللہ ورسلہ اور ایمان بالیوم الآخر میں ان حضرات کی اقتداء کا حکم ہے۔ نیز حضرات انبیاء (علیہ السلام) کی جو صفات تھیں (عبادت زہد، شکر، تواضع اور تضرع) ان چیزوں میں ان کا اقتداء کرنا مراد ہے۔ ان حضرات نے اپنی قوموں کے انکار اور ایذاء رسانی پر صبر کیا۔ حلم سے کام لیا آپ بھی اس کو اختیار کریں۔ سورة ص کے سجدہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرات شوافع کے نزدیک سورة ص میں سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے صحیح بخاری ج 2 ص 709 میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے سورة ص کی تلاوت کرتے ہوئے آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو حضرت مجاہد تابعی جو ان کے شاگرد ہیں انہوں نے دریافت کیا کہ آپ نے کس دلیل سے یہاں سجدہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم یہ آیت نہیں پڑھتے۔ (وَمِنْ ذُرِّیَّتہٖ دَاوٗدَ وَ سُلیْمٰنَ الیٰ قولہ تعالیٰ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰیھُمُ اقْتَدِہْ ) حضرت داؤد (علیہ السلام) ان حضرات میں تھے جن کی اقتداء کا تمہارے نبی کو حکم دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے وہاں سجدہ کیا (لہٰذا ہم بھی سجدہ کرتے ہیں) حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک سورة ص کا سجدہ واجب ہے۔ پھر فرمایا (قُلْ لَّآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا) کہ میں اس پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا۔ (یہ جو تبلیغ اور دعوت کا کام ہے یہ سب اللہ کی رضا کے لیے ہے اس کا ثواب مجھے اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے) سورة سبا میں فرمایا (قُلْ مَا سَأَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَھُوَ لَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللَّہِ وَ ھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٌ) (آپ فرما دیجیے کہ میں نے تم سے جو معاوضہ طلب کیا ہے وہ تمہارے ہی لیے ہے بس میرا اجر صرف اللہ پر ہے اور وہ ہر چیز کی اطلاع رکھتا ہے) مطلب یہ ہے کہ میں تم سے کسی معاوضے کا طلب گار نہیں ہوں۔ بالفرض میں نے تم سے کبھی طلب کیا تو مجھے نہیں چاہیے وہ تم خود ہی رکھ لو۔ آخر میں فرمایا (اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ) (یہ قرآن جو میں تمہیں سناتا ہوں یہ جہانوں کے لیے محض ایک نصیحت ہے) اس میں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت عمومی کا ذکر ہے۔ جب قرآن سارے جہانوں، سارے جنات اور سارے انسانوں کے لیے ہے اور کسی خاص قوم کے لیے مخصوص نہیں ہے تو قرآن لانے والا بھی ان سب کے لیے اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ قال صاحب الروح و استدل بالایۃ علی عموم بعثتہ e
Top