Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 33
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
قَدْ نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں اِنَّهٗ : کہ وہ لَيَحْزُنُكَ : آپ کو ضرور رنجیدہ کرتی ہے الَّذِيْ : وہ جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں فَاِنَّهُمْ : سو وہ یقینا لَا يُكَذِّبُوْنَكَ : نہیں جھٹلاتے آپ کو وَلٰكِنَّ : اور لیکن (بلکہ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : انکار کرتے ہیں
ہم جانتے ہیں کہ بیشک آپ کو ان کی باتیں رنجیدہ کرتی ہیں۔ سو یہ یقینی بات ہے وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے اور لیکن ظلم کرنے والے اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔
مشرکین مکہ آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں معالم التنزیل ج 2 ص 93 میں لکھا ہے کہ اخنس بن شریق کی ابو جہل سے ملاقات ہوگئی۔ اخنس نے ابو جہل سے کہا کہ اس وقت یہاں تیرے اور میرے سوا کوئی نہیں تو مجھے سچی بات بتادے کہ محمد بن عبداللہ ﷺ اپنے دعوے میں سچے ہیں یا جھوٹے ؟ ابو جہل نے کہا اللہ کی قسم ! اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد ﷺ سچے ہیں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن ہمارے جھٹلانے کی وجہ یہ ہے کہ جب بنو قصی (جو قریش کا ایک قبیلہ تھا جس میں سے رسول اللہ ﷺ تھے) کے پاس علمبر داری بھی چلی جائے اور سقایہ (یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت) بھی چلی جائے اور کعبہ شریف کی کلید برادری بھی چلی جائے اور مجلس شوریٰ کی سرداری بھی انہی کو پہنچ جائے اور نبی بھی انہیں میں سے ہوجائے تو باقی قریش کے لیے کیا بچے گا ؟ اور بعض روایات میں ہے کہ ابوجہل نے نبی اکرم ﷺ سے کہا کہ ہم آپ پر تہمت نہیں دھرتے اور نہ آپ کو جھٹلاتے ہیں ہم تو اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کی دعوت لے کر آپ تشریف لائے اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ ان کو آپ کی نبوت و رسالت میں اور آپ کے دعوے کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں یہ آپ کو سچا سمجھتے ہیں لیکن ان کو اللہ کی آیات سے ضد ہے۔ اللہ کی آیات ان کے اعتقادات اور ان کے شرک کے خلاف کھول کھول کر بیان کر رہی ہیں اس لیے ان کے مخالف ہیں اور ان کو جھٹلاتے ہیں۔
Top