Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 153
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاَنَّ : اور یہ کہ ھٰذَا : یہ صِرَاطِيْ : یہ راستہ مُسْتَقِيْمًا : سیدھا فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس پر چلو وَلَا تَتَّبِعُوا : اور نہ چلو السُّبُلَ : راستے فَتَفَرَّقَ : پس جدا کردیں بِكُمْ : تمہیں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ بِهٖ : حکم دیا اس کا لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کرو
اور بلاشبہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس کا اتباع کرو۔ اور مت اتباع کرو دوسرے راستوں کا سو وہ راستے تمہیں اللہ کے راستہ سے ہٹا دیں گے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو
صراط مستقیم کا اتباع کرو : (10) بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس کا اتباع کرو۔ اور دوسرے راستوں کا اتباع نہ کروکیون کہ یہ راستے تمہیں اللہ کے راستہ سے ہٹا دیں گے، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے قرآن نازل فرمایا اور آنحضرت ﷺ کو قرآن کا مبلغ اور معلم اور مبین (بیان کرنے والا) بنایا۔ اور آپ کی اطاعت فرض کی۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و اتباع یہ سیدھا راستہ ہے جو صحابہ کرام اور تابعین عظام سے لے کر ہم تک پہنچا ہے جو لوگ اسلام کے متبع نہیں جیسے یہود و نصاریٰ اور جو لوگ دین اسلام کے مدعی ہیں لیکن اصحاب اہواء ہیں اپنی خواہشوں کے مطابق دین بناتے ہیں اور الحادو زندقہ کی باتیں کرتے ہیں ایسے لوگ رسول اللہ ﷺ کے راستہ پر نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے راستے پر جو شخص چلے گا وہ صراط مستقیم سے ہٹ جائے گا۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کی راہ پر نہ رہے گا، آخرت میں اسی کی نجات ہے جو آنحضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے راستہ پر ہو۔ صراط مستقیم کے علاوہ سب راستے گمراہی کے ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے اور اس کے دائیں بائیں خطوط کھینچے اور فرمایا کہ یہ مختلف راستے ہیں ان میں سے ہر راستہ پر شیطان ہے جو اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ) (الاٰیۃ) (رواہ احمد و النسائی و الدارمی کمافی المشکوٰۃ ص 30) پھر ارشاد فرمایا۔ (ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) (کہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تمہیں اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو) تقویٰ اختیار کرنے میں ہر بات آگئی اور اوامر کی بھی پابندی کی جائے اور جن چیزوں سے منع فرمایا ان سے بھی اجتناب کیا جائے۔ برے اعمال، عقائد باطلہ، کفر، شرک سب سے بچنا تقویٰ کے مفہوم میں داخل ہے۔ فائدہ : آیات بالا میں دس باتوں کا حکم دیا ہے۔ یہ دس باتیں بہت اہم ہیں جن میں حقوق اللہ اور حقوق العباد سب کی رعایت کرنے کا حکم دیا ہے اور آخر میں صراط مستقیم سے ہٹنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی وصیت کو دیکھنا چاہے جس پر آپ کی مہر ہے تو یہ آیات (قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَاحَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ ) سے لے کر (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) تک پڑھ لے۔ (رواہ الترمذی تفسیر سورة الانعام) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ سورة انعام میں یہ آیات محکمات ہیں جو ام الکتاب ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے آیات بالا تلاوت کیں۔ (ابن کثیر ج 2 ص 187)
Top