Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مالوں کو ناحق طریقہ سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی تجارت آپس کی رضا مندی سے ہو، اور مت قتل کرو اپنی جانوں کو، بیشک اللہ تم پر بہت بڑا مہربان ہے
باطل طریقے پر مال کھانے کی ممانعت اور تجارت کا اصول اس آیت کریمہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ آپس ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ پر نہ کھاؤ صاحب معالم التنزیل صفحہ 417: ج 1 پر لکھتے ہیں بالحرام یعنی بالربوا و القمار والغصب والسرقۃ والخیانۃ ونحوھا وقیل ھو العقود الفاسدۃ (یعنی باطل سے مراد یہ ہے کہ حرام طریقہ پر ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ مثلاً سود لے کے جوئے بازی کے طریقے سے اور چھین کر، چوری کر کے، خیانت کر کے اور اسی طرح کے دوسرے غیر شرعی طریقوں سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ) اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے عقود فاسدہ مراد ہیں یعنی خریدو فروخت اور اجارہ وغیرہ کے وہ طریقے جو شرعاً فاسد ہیں ان کے ذریعہ ایک دوسرے کا مال حاصل نہ کرو۔ لفظ باطل بہت عام ہے مال حاصل کرنے کا ہر وہ طریقہ جو شرعاً جائز نہ ہو وہ سب باطل کے عموم میں داخل ہے۔ پھر (اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ) فرماتے ہوئے تجارت کے ذریعہ مال حاصل کرنے کو جائز قرار دیا اور ساتھ ہی عن تراض کی بھی قید لگا دی یعنی تجارت کے ذریعہ بھی وہ مال حاصل کرنا حلال ہے جو آپس کی رضا مندی سے ہو۔ خریدار یا صاحب مال دونوں کسی معاملہ پر راضی ہوجائیں اور یہ رضا مندی خوش دلی سے ہو تو لین دین جائز ہے کسی فریق کو خریدنے یا بیچنے پر مجبور نہ کیا جائے بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ کسی کی چیز اٹھا کر چل دیتے ہیں یہ غصب یا لوٹ مار ہے اور بعض لوگ صاحب مال کو کچھ پیسے دے دیتے ہیں۔ اول تو وہ بیچنے پر راضی نہیں ہوتا اور اگر راضی ہوجائے تو اتنی قیمت نہیں دیتے جس پر وہ خوش دلی سے راضی ہو زبردستی کسی کی چیز لے لینا یا اپنے پاس سے خود قیمت تجویز کر کے دے دینا جس سے صاحب مال راضی اور خوش نہ ہو تو یہ سب حرام ہے۔ چند غیر شرعی معاملات کا تذکرہ : جتنے بھی غیر شرعی معاملات ہیں ان کے ذریعہ جو مال حاصل ہوگا وہ باطل طریقے پر کھانے میں شمار ہوگا، شراب، خنزیر اور مردار کی بیع حرام ہے، رشوت لینا حرام ہے جو پیسہ اس ذریعہ سے ملے وہ بھی حرام ہے جو چیز اپنی ملکیت میں نہیں اس کی بیع باطل ہے، پرندہ کی بیع جبکہ وہ اڑ رہا ہے اور مچھلی کی بیع جبکہ وہ سمندر میں ہو یہ بھی بیع باطل ہے، اگر مال مثلاً سور وپے کا لیا ہو اور خریدار سے یوں کہے کہ میں نے ایک سو دس میں لیا ہے اور تمہیں اصل دام پر دیتا ہوں، یہ بھی حرام ہے اس میں جھوٹ بھی ہے اور فریب بھی۔ کرایہ پر مکان، دکان کا دینا لینا بھی ایک قسم کی تجارت ہے اس میں بھی باہمی رضا مندی شرط ہے بہت سے لوگ کسی کے خالی مکان کو دیکھ کر قبضہ کرلیتے ہیں پھر صاحب مکان کو مجبور کرتے ہیں کہ کرایہ لے لو اگر وہ کرایہ لینا منظور کرے تو اپنا منہ بولا کرایہ دینے پر مجبور کرتے ہیں وہ مجبور ہو کر بد دلی کے ساتھ تھوڑا کرایہ منظور کرلیتا ہے، یہ بھی حرام ہے اور بعض لوگ حکومتوں کے غیر شرعی قانون کی آڑ لیتے ہیں۔ حکومتوں کا قانون ہے کہ کرایہ دار سے خالی نہیں کرا سکتے، کرایہ بھی نہیں بڑھا سکتے، ایسے قانون بنانا اور ایسے قانون کو استعمال کر کے مالک مکان کو نقصان پہنچانا یہ بھی حرام ہے۔ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ مال ایک ہزار کا خریدا اور دکاندار سے کیش میمو بارہ سو کا بنوا لیا پھر جب کوئی شخص خریدنے آیا تو اس کو وہ کیش میمو دکھا کر یہ باور کرادیا کہ یہ مال ہم نے بارہ سو میں خریدا ہے لہٰذا تم دام کے دام خرید لو یا سو روپیہ نفع دے کرلے لو۔ یہ سب دھوکہ دہی ہے اور حرام ہے۔ پھر فرمایا (وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ) (اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) اس کی تفسیر بعض مفسرین نے یوں فرمایا ہے کہ حرام مال کھا کر اپنی جانوں کو قتل نہ کرو (کیونکہ آخرت کا عذاب دنیاوی قتل کی تکلیف سے کہیں زیادہ ہے) اور بعض حضرات نے اس کی تفسیر کرتے ہوتے فرمایا (لاَ یَقْتُلْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ) کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس میں خود کشی کی ممانعت فرمائی ہے (معالم التنزیل صفحہ 418) چونکہ الفاظ میں عموم ہے اس لیے آیت کا مفہوم ان سب کو شامل ہے۔ اس زمانہ میں قتل و غارت کی بہت کثرت ہے، مسلمان مسلمان کو قتل کرتا ہے، لسانی اور صوبائی عصبیتوں اور طرح طرح کی جاہلانہ باتوں کی وجہ سے خونریزی کا بازار گرم ہے دشمنوں نے مسلمانوں کو آپس کے جنگ وجدال پر آمادہ کر رکھا ہے بظاہر دنیاوی مفاد سامنے آتا ہے، اس لیے بےتحاشا قتل کی وار داتیں ہوتی رہتی ہیں، اس بارے میں جو وعیدیں ہیں سورة نساء کی آیت (وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُوْمِناً مُّتَعَمِّدًا) (الآیۃ رکوع 14) کے ذیل میں انشاء اللہ بیان ہوں گی۔ خود کشی کا گناہ : جیسا کہ کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرنا حرام ہے اپنی جان کو قتل کرنا بھی حرام ہے، یہ جان اس ذات پاک کی ملکیت ہے جس نے جان بخشی ہے کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی بھی طرح خود کشی کرے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے پہاڑ سے گر کر خود کشی کرلی وہ دوزخ کی آگ میں ہوگا، ہمیشہ ہمیشہ اس میں چڑھتا اور گرتا رہے گا، اور جس شخص نے زہر پی کر خود کشی کرلی اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا دوزخ کی آگ میں وہ ہمیشہ ہمیشہ اس کو پیتا رہے گا، اور جس شخص نے کسی لوہے کی چیز سے خود کشی کرلی اس کا وہ لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا۔ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اس لوہے کو اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا (رواہ البخاری کمافی المشکوٰۃ صفحہ 299) دنیا کی مصیبتوں سے تنگ آکر بعض لوگ خود کشی کرلیتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ آخرت کا عذاب اس دنیاوی تکلیف سے بہت زیادہ ہے۔ آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا) کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہے اس نے جو احکام بھیجے ہیں ان کو اپنے حق میں خیر سمجھو، ان احکام کی تعمیل میں تمہارے لیے دنیا و آخرت کی خیر ہے، جس حکم کی تعمیل میں تکلیف محسوس ہوتی ہو ہمت کرکے اس کی بھی تعمیل کروکیون کہ حکم کی خلاف ورزی میں تمہارے لیے سراپا ضرر ہے اللہ تعالیٰ نے جو احکام دئیے ہیں ان میں تمہیں نقصان اور ضرر سے بچایا ہے۔
Top