Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 161
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوئے وَمَاتُوْا : اور وہ مرگئے وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : کافر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلَيْهِمْ : ان پر لَعْنَةُ : لعنت اللّٰهِ : اللہ وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالنَّاسِ : اور لوگ اَجْمَعِيْنَ : تمام
بیشک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور وہ اس حال میں مرگئے کہ وہ کافر تھے سو وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔
کفر پر مرنے والوں پر لعنت اور عذاب اس آیت شریفہ میں کفر پر مرنے والوں کی سزا کا ذکر ہے آیت کا عموم ان یہود کو بھی شامل ہے جو کفر پر جمے رہے اور دوسروں کو بھی کفر پر جمائے رکھا۔ حضور اقدس ﷺ کی نعت اور صفت کو چھپایا اور حق کو قبول نہ کیا اور نہ دوسروں کو قبول کرنے دیا، اور یہود کے علاوہ دوسرے تمام کفار نصاریٰ مشرکین منکرین رسالت انبیاء ( علیہ السلام) اور منکرین عقائد اسلامیہ اور منکرین ضروریات دین اور ختم نبوت کے منکر اور تمام ملاحدہ اور زنادقہ اور وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا پھر کافر ہوگئے ان سب کو آیت کا عموم شامل ہے۔ حاصل یہ ہے کہ تمام کافر جو کفر پر مرجائیں ان سب پر اللہ کی لعنت ہے اور سب فرشتوں کی اور سب انسانوں کی، گزشتہ آیت کی تفسیر میں بتادیا گیا ہے کہ لعنت خدائے پاک کی رحمت سے دوری کو کہتے ہیں۔ سب سے بڑی دوری یہ ہے کہ دوزخ میں ہمیشہ کے لیے داخلہ ہوجائے کافروں کے لیے یہ سب سے بڑی لعنت ہے اس لیے خالِدِیْنَ فرمایا۔ حضرت ابو العالیہ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا خالدین فی جھنم فی اللعنۃ یعنی وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل ہوں گے اور لعنت میں رہیں گے۔ (در منثور ص 167 ج 1) شاید کسی کے ذہن میں یہ خیال وارد ہو کہ کافر تو ایک دوسرے پر لعنت نہیں کرتے پھر ان سب لوگوں کی لعنت کیسے ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اس دنیا میں لعنت نہیں کرتے مگر آخرت میں سب ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ سورة عنکبوت میں ہے (ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّ یَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا وَّ مَاْوٰیکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ) (یعنی پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے سے برگشتہ ہوجاؤ گے۔ اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا۔ اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی حمایتی نہ ہوگا۔ سورۃ اعراف میں ہے (کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا حَتّآی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًا قَالَتْ اُخْرٰیھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھآؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ) (جب بھی کوئی جماعت دوزخ میں داخل ہوگی تو وہ دوسری جماعت پر لعنت بھیجے گی۔ یہاں تک کہ جب سب دوزخ میں ایک دوسرے کو پالیں گے تو بعد والے پہلے والوں کے بارے میں کہیں گے کہ اے ہمارے رب ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ لہٰذا ان کو آگ کا دو گنا عذاب دے۔ اور سورة احزاب میں فرمایا (وَ قَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا رَبَّنَآ اٰتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا) (اور وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی، سو انہوں نے ہم کو راہ سے بھٹکا دیا اے ہمارے رب ان کو دہری سزا دیجیے اور ان پر بڑی لعنت فرما۔ تفسیر در منثور میں ہے کہ حضرت ابو العالیہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن کافر کھڑا کردیا جائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ پھر اس کے فرشتے لعنت کریں گے۔ پھر تمام انسان اس پر لعنت بھیجیں گے۔ پھر فرمایا (لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ ) (یعنی ان لوگوں سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ ) سورۃ نحل میں فرمایا (اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ زِدْنٰھُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یُفْسِدُوْنَ ) (یعنی جو لوگ کفر کرتے تھے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے ان کے لیے ہم ایک سزا پر دوسری سزا بمقابلہ ان کے فساد کے بڑھا دیں گے۔ سورۃ زخرف میں فرمایا (اِِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ لاَ یُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَھُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ ) (بلاشبہ مجرمین جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اس میں ناامید ہو کر پڑے رہیں گے) سورۂ مومن میں فرمایا (وَقَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَہَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّکُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ قَالُوْا اَوَ لَمْ تَکُ تَاْتِیکُمْ رُسُلُکُمْ بالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا بَلٰی قَالُوْا فَادْعُوْا وَمَا دُعَاءُ الْکٰفِرِیْنَ اِِلَّا فِیْ ضَلاَلٍ ) ” اور جو لوگ دوزخ میں ہوں گے جہنم کے دارو غاؤں سے کہیں گے کہ اپنے رب سے تم دعا کرو ایک دن ہمارا عذاب ہلکا فرما دے، وہ کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے رسول کھلے کھلے دلائل لے کر نہ آئے تھے وہ کہیں گے ہاں آئے تو تھے۔ داروغے کہیں گے کہ پھر تم ہی دعا کرلو اور کافروں کی دعا نہیں ہے مگر بےاثر۔ “ آخر میں فرمایا (وَ لاَ ھُمْ یُنْظَرُوْنَ ) (اور ان کو مہلت نہ دی جائے گی) ۔ مہلت اسے دی جاتی ہے جسے اپیل کرنے کا موقع دیا جائے۔ کافروں کو بہر حال دائمی عذاب میں رہنا ہے کسی طرح کی ان کے لیے کوئی مہلت نہیں دی جائے گی نہ ان کو کسی طرح کی معذرت خواہی کی اجازت دی جائے گی۔ سورۃ مرسلات میں فرمایا (ھٰذَا یَوْمُ لاَ یَنْطِقُوْنَ وَلاَ یُؤْذَنُ لَہُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ وَیْلٌ یَّوْمَءِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ ) (یہ دن ہے جس میں وہ نہ بولیں گے اور نہ ان کو اجازت دی جائے گی کہ عذر پیش کریں۔ ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے) ۔ لعنت کرنے سے متعلقہ مسائل : مسئلہ : عام طور سے یوں کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت اور ظالموں پر اللہ کی لعنت لیکن کسی خاص شخص کو مقرر کر کے یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ ملعون ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو، خاص طور پر معین کر کے صرف اسی شخص پر لعنت بھیج سکتے ہیں جس کا کفر پر مرنا یقینی ہو جیسے فرعون، ابو لہب ابو جہل وغیرہ، جو شخص اسی دنیا میں موجود ہے اور حالت کفر میں ہے اس کو بھی متعین طریقہ پر ملعون کہنا جائز نہیں کیونکہ یہ یقین نہیں ہے کہ وہ کفر پر مرے گا، بہت سے لوگ اس میں بےاختیار ہوتے ہیں نہ صرف کافروں کو بلکہ مسلمانوں کو ملعون لعین کہہ دیتے ہیں۔ بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کی زبان اس میں زیادہ کھلی ہوئی ہوتی ہے۔ حضرت ابو درداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرے تو لعنت آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے۔ سو آسمان کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں پھر زمین کی طرف اتاری جاتی ہے سو زمین کے دروازے بھی بند کردیے جاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں اپنا راستہ دیکھتی ہے جب کوئی جگہ نہیں پاتی تو اس پر لوٹ جاتی ہے جس نے لعنت کے لفظ زبان سے نکالے تھے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب ص 316 ج 2) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص کی چادر ہوا نے ہٹا دی۔ اس نے ہوا پر لعنت کردی حضرت رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کر کیونکہ وہ تو اللہ کے حکم کے مطابق چلتی ہے اور اس میں شک نہیں کہ جو شخص کسی چیز پر لعنت کرے اور وہ چیز اس کی اہل نہ ہو تو لعنت کرنے والے پر ہی لعنت لوٹ جاتی ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب ص 316 ج 2) مسئلہ : لعنت کے ہم معنی جو بھی الفاظ ہوں ان کا استعمال کرنا بھی اسی وقت جائز ہے جبکہ اصول کے مطابق اس پر لعنت بھیجنا جائز ہو۔ لفظ مردود بھی ملعون کے معنی میں ہے اور پھٹکار بھی اردو میں لعنت کے معنی میں آتا ہے۔ عورتوں کو لعنت اور اس کے ہم معنی لفظ استعمال کرنے کی بہت زیادہ عادت ہوتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ ایک مرتبہ عید الفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ عورتوں پر آپ کا گزر ہوا آپ نے فرمایا کہ اے عورتو ! تم صدقہ کرو مجھے دوزخ میں تمہاری تعداد زیادہ دکھائی گئی ہے۔ عورتوں نے عرض کیا کیوں یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا کہ تم لعنت زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 13 از بخاری و مسلم)
Top