Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 160
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو تَابُوْا : جنہوں نے توبہ کی وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی وَبَيَّنُوْا : اور واضح کیا فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں اَتُوْبُ : میں معاف کرتا ہوں عَلَيْهِمْ : انہیں وَاَنَا : اور میں التَّوَّابُ : معاف کرنے والا الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کی اور بیان کیا سو یہ وہ لوگ ہیں جن کی توبہ میں قبول کروں گا۔ اور میں بہت توبہ قبول کرنے والا ہوں رحیم ہوں۔
حق چھپانے اور گمراہ کرنے والوں کی توبہ کی شرائط : صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ای رجعوا عن الکتمان أوعنہ و عن سائر ما یجب أن یتاب عنہ۔ (ص 28 ج 2) (یعنی وہ لوگ لعنت سے بچ جائیں گے جنہوں نے علم کے چھپانے سے اور ہر اس عمل سے توبہ کی جس سے توبہ کرنا لازم ہے) ۔ پھر فرمایا وَ اَصْلَحُوْا۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : اصلحوا ما افسدوا بالتدارک فیما یتعلق بحقوق الحق والخلق و من ذلک أن یصلحوا قومھم بالارشاد الی الاسلام بعد الاضلال وان یزیلوا الکلام المحرف ویکتبوا مکانہ ما کانوا ازالوہ عنہ التحریف۔ ” یعنی توبہ کرنے کے ساتھ اصلاح بھی کریں، جو فساد کیا تھا اس کو دور کریں حق کے چھپانے کی وجہ سے خالق جل مجدہ اور مخلوق کے جو حقوق تلف ہوئے تھے ان کا تدارک کریں اور جن لوگوں کو گمراہ کیا تھا ان کو اسلام قبول کرنے کی طرف دعوت دیں اور بتادیں کہ ہم نے تم کو حق سے روکا تھا حق یہ ہے کہ جو ہم اب کہہ رہے ہیں اور اللہ کی کتاب میں جو کچھ تحریف کی تھی اس کو درست کردیں۔ غلط کو ہٹا دیں اور صحیح کو اس کے قائم مقام کردیں۔ “ پھر فرمایا : وَبَیَّنُوْا، اس کی تفسیر کرتے ہوئے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : أی اظھر و اما بینہ اللہ تعالیٰ للناس معاینۃ۔۔” یعنی اللہ تعالیٰ شانہ نے جو کچھ بیان فرمایا تھا اور انہوں نے اس کو چھپا دیا تھا اب اس کو خوب واضح طور پر بیان کریں۔ “ نیز صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : وبھذین الامرین تتم التوبۃ۔ یعنی جن لوگوں نے حق کو چھپایا فساد کیا لوگوں کو گمراہی پر ڈالا ان کی توبہ اسی وقت پوری ہوگی جب وہ اصلاح بھی کریں اور بیان بھی کریں۔ ان کے قول و فعل سے جو خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام و خواص میں جو گمراہی پھیلی اس کی تلافی کریں جو حقوق تلف ہوئے ہیں ان کا تدارک کریں۔ یہ بات بہت اہم ہے جس کی طرف لوگوں کو بہت کم توجہ ہوتی ہے۔ بہت سے آزاد خیال لوگ جو اہل حق کو چھوڑ کر خودرو مجتہد اور مجدد بن جاتے ہیں اور مصنف اور مضمون نگار ہونے کے زعم میں زور قلم دکھاتے ہیں ایسے لوگ اہل سنت والجماعت سے ہٹ کر اپنی راہ نکالتے ہیں اور اسی کی اشاعت کرتے ہیں یہ لوگ اگر توبہ کرنے لگیں تو صرف تنہائی میں توبہ کرنا کافی نہیں ہے ان لوگوں پر لازم ہے کہ صاف صاف اعلان کریں اور عوام کو بتائیں کہ فلاں فلاں عقیدہ یا عمل کی جو ہم نے اہل السنت والجماعت کے مسلک کے خلاف تبلیغ و اشاعت کی ہے وہ غلط ہے آج کل فتنوں کا دور ہے۔ بہت سے لوگ صریح کفر اختیار کرلیتے ہیں اور اس کی تبلیغ و اشاعت بھی کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب توبہ کرتے ہیں تو چپکے سے توبہ کرکے گھر میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ (تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا) تینوں پر عمل کریں۔ فائدہ اولیٰ : جہاں علم دین کا چھپانا گناہ ہے۔ وہاں یہ بات بھی جان لینا ضروری ہے کہ جو شخص واقعی عالم ہو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے واقف ہو حلال حرام کا علم رکھتا ہو مسائل سے پوری طرح واقف ہو مسئلہ بتانے فتوی دینے کا مقام اسی شخص کا ہے۔ غلط مسئلہ بتانے کا و بال بھی بہت زیادہ ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : من سئل من علمہ ثم کتمہ الجم یوم القیامۃ بلجام من نار۔ کہ جس شخص سے علم کی بات پوچھی گئی جسے وہ جانتا تھا پھر اس نے اس کو چھپایا تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ (سنن التر مذی ابواب العلم) اس میں لفظ عملہ جو زیادہ فرمایا ہے یہ اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ جو شخص جانتا ہو بتانے کی ذمہ داری اسی کی ہے بےعلم اگر دینی بات بتانے کی جرأت کرے گا تو گمراہی کے گڑھے میں گرے گا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔ صحیح بخاری ص 710 ج 2 میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اے لوگو ! جسے علم کی کوئی چیز معلوم ہو تو وہ اسے بتادے اور جسے معلوم نہ ہو تو اللہ اعلم کہہ دے (یعنی اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے) ...... اس لیے کہ یہ بھی علم کی بات ہے کہ جو کچھ نہ جانتا ہو اس کے بارے میں اللہ اعلم کہہ دے اور خواہ مخواہ اپنے پاس سے نہ بتاوے اور بتکلف عالم نہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے (قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ ) (آپ فرما دیجیے کہ میں تم سے اس پر کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا اور میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ ) اسی لیے علماء نے فرمایا کہ لا ادری نصف العلم (یعنی یہ کہہ دینا کہ میں نہیں جانتا یہ آدھا علم ہے) بہت سے ناقص العلم آدمیوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ان کے ہاں لا ادری کا خانہ ہی نہیں ہے ہر بات بتانے کو تیار ہیں اور علم پڑھے بغیر دینی کتابیں لکھتے ہیں غلط مسائل جمع کرتے ہیں اور یہ بھی لکھا گیا کہ جب کسی اچھے علم والے ماہر مفتی سے کوئی شخص مسئلہ پوچھے تو وہ ابھی غور ہی کر رہا ہے لیکن پاس کے بیٹھنے والے جاہلوں نے بتا کر بات ختم بھی کردی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ دینی ذمہ داری اور آخرت کے مواخذہ کا احساس نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ (اَجْرَءُ کُمْ عَلَی الْفُتْیَا اَجْرَءُ کُمْ عَلَی النَّارِ ) (یعنی تم میں جو شخص فتوی دینے میں زیادہ جری ہے وہ دوزخ میں جانے پر زیادہ جرأت کرنے والا ہے) ۔ (سنن الدارمی ص 53 ج 1) درحقیقت قرآن کے معنی بتانا یا حدیث کی روایت کرنا یا مسئلہ بتانا بہت بڑی ذمہ داری کی بات ہے۔ حضرت محمد بن المنکدر نے فرمایا کہ بلاشبہ عالم (جو علم کی باتیں بتاتا ہو) وہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ بن جاتا ہے۔ اب اس ذمہ داری سے نکلنے کا راستہ سوچے (سنن الدارمی ص 50 ج 1) نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ اٹکل سے اور بھر پور علم کے بغیر باتیں نہ بتائے اور جو کوئی بات معلوم نہ ہو، صاف نہ ہو، صاف کہہ دے کہ مجھے معلوم نہیں۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو کوئی فتوی دیا گیا جو علم اور تحقیق کے بغیر تھا تو اس کا گناہ اسی پر ہے جس نے اسے فتوی دیا۔ (سنن دارمی 53 ج 1 وسنن ابو داؤد ص 159 ج 2) اول تو مسئلہ خوب تحقیق کے بعد بتائیں پھر بھی اگر غلطی ہوجائے تو اپنی غلطی کا اعلان کریں اور جسے فتوی دیا ہو اسے تلاش کریں اور بتائیں کہ ہم سے غلطی ہوگئی، صحیح مسئلہ یہ ہے۔ فائدہ ثانیہ : علم کی باتوں کو چھپانا گناہ ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت اور حدیث سے معلوم ہوا لیکن بتانے والے کو یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ سائل جو کچھ پوچھ رہا ہے وہ اس کے جو اب کو سمجھنے کا اہل ہے بھی یا نہیں۔ اور اگر سمجھ بھی لے گا تو اس سے مطلب کیا نکالے گا اور لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگی تو وہ اس کو سمجھ پائیں گے یا نہیں اور کسی فتنہ میں تو نہ پڑجائیں گے۔ حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو وہ باتیں بتاؤ جو جانتے پہچانتے ہوں (ان کی عقل و فہم سے اونچی باتیں کرو گے تو وہ اللہ و رسول کی تکذیب کریں گے) کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے (بخاری ص 24 ج 1) حضور اقدس ﷺ نے حضرت معاذ ؓ سے فرمایا : من لقی اللہ لا یشرک بہ شیئا دخل الجنۃ (کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس نے شرک نہ کیا ہو تو جنت میں داخل ہوگا) ۔ انہوں نے عرض کیا لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دے دوں ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں، مجھے ڈر ہے کہ لوگ (اسی پر) بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور اعمال چھوڑ دیں گے) ۔ (صحیح بخاری ص 24 ج 1) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ان الذی یفتی الناس فی کل ما یستفی المجنون۔ (جو شخص لوگوں کے ہر استفتاء کا جواب دے وہ دیوانہ ہے۔ (سنن دارمی ص 56 ج 1، ورواہ الطبرانی فی الکبیر کمافی جمع الفوائد)
Top