Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 71
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ١ۚ فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓئِكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
يَوْمَ : جس دن نَدْعُوْا : ہم بلائیں گے كُلَّ اُنَاسٍ : تمام لوگ بِاِمَامِهِمْ : ان کے پیشواؤں کے ساتھ فَمَنْ : پس جو اُوْتِيَ : دیا گیا كِتٰبَهٗ : اسکی کتاب بِيَمِيْنِهٖ : اس کے دائیں ہاتھ میں فَاُولٰٓئِكَ : تو وہ لوگ يَقْرَءُوْنَ : پڑھیں گے كِتٰبَهُمْ : اپنا اعمالنامہ وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور نہ وہ ظلم کیے جائیں گے فَتِيْلًا : ایک دھاگے کے برابر
جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے سو جس کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا گیا سو یہ لوگ اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ کیا جائے گا
قیامت کے دن جن کے داہنے ہاتھ میں اعمالنامے دئیے جائیں گے وہ اپنے اعمالنامے پڑھ لیں گے جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے آخرت میں بھی اندھا ہوگا اوپر دو آیتوں کا ترجمہ لکھا گیا ہے پہلی آیت میں اعمال ناموں کی تفصیل اور دوسری آیت میں راہ ہدایت سے منہ موڑنے والوں کا اور قصداً اندھا بننے والوں کا تذکرہ ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ قرآن مجید میں لفظ ” امام “ کئی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مفسر قرطبی نے حضرت ابن عباس اور حسن اور قتادہ ؓ سے یہاں بِاِمَامِھِمْ کی تفسیر ” بکتابھم “ نقل کی ہے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ والکتاب یسمی اماما لانہ یرجع الیہ فی تعرف اعمالھم لفظ امام کا جو معنی اس جگہ حضرت ابن عباس ؓ نے مراد لیا ہے سیاق کلام کے موافق ہے کیونکہ بعد میں داہنے ہاتھ میں اعمال نامے دئیے جانے کا ذکر ہے۔ قال القرطبی قولہ تعالیٰ فَمَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ ھذا یقوی قول من قال امامھم بکتابھم اسی سورت کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے کہ (وَ کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓءِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقہُ مَنْشُوْرًا) جس میں بتایا ہے کہ ہر انسان کو اس کا اعمال نامہ ملے گا، اور وہ کھلا ہوا دیکھ لے گا۔ اور یہاں فرمایا ہے جن کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دئیے جائیں گے وہ ان کو پڑھیں گے۔ چونکہ داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ مل جانا اس بات کی دلیل ہوگا کہ یہ لوگ نجات والے ہیں اور جنت والے ہیں۔ اس لیے خوشی خوشی اپنے اعمالنامہ کو پڑھیں گے۔ سورة حاقہ میں ہے کہ جس کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا وہ لوگوں سے کہے گا (ھَآؤُمُ اقْرَءُ وْاکِتَابِیَہْ ) (لو میرا اعمال نامہ پڑھ لو) یہ خوشی میں کہے گا۔ اپنا اعمال نامہ خود بھی پڑھے گا اور دوسروں کو بھی پڑھوائے گا اور وہ یوں بھی کہے گا۔ (اِنِّیْ ظَنَنْتُ اِنِّیْ مُلاَقٍ حِسَابِیَہْ ) (میں یقین رکھتا تھا کہ مجھے اپنے حساب سے ملاقات کرنا ہے) دنیا میں حساب کا یقین رکھا لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتا رہا آج اس کا یہ پھل مل رہا ہے کہ اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں ہے اور آئندہ میرے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (وَلاَ یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ) اور ان پر ذرا سا بھی ظلم نہ ہوگا کھجور کی گٹھلی کے گڑھے میں جو تاگہ ہوتا ہے اہل عرب اسے فتیل کہتے تھے اور ذرا سی چیز بتانے کے لیے اسے بطور مثال پیش کیا کرتے تھے۔ اسی معنی کو بیان کرتے ہوئے (وَلاَ یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ) فرمایا۔ سورۂ حاقہ میں ہے کہ برے لوگوں کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے۔ اور سورة انشقاق میں ہے کہ ان لوگوں کے اعمال نامے پشت کے پیچھے سے دئیے جائیں گے۔ مشکیں بندھی ہوئی ہونے کی صورت میں ہاتھ پیچھے ہوتے ہیں لہٰذا بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملنا اور پشت کے پیچھے سے دیا جانا اس میں کوئی تعارض کی بات نہیں ہے۔ جن کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دئیے جائیں گے یہ کافر ہوں گے اور کافروں کی کبھی نجات نہ ہوگی۔ ہمیشہ دائمی عذاب میں رہیں گے۔ لفظ (بِاِمَامِھِمْ ) کے بارے میں حضرت مجاہد (رح) نے فرمایا کہ اس سے ہر امت کا نبی مراد ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ان کے انبیاء کے ساتھ بلائیں گے، ہر امت اپنے نبی کے ساتھ ہوگی سورة نساء کی آیت (فَکَیْفَ اِذَاجِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ ) سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ اور (بِاِمَامِھِمْ ) کی تفسیر یہ ہے (ونقلہ القرطبی عن ابن زید) کہ اس سے ہر امت کی کتاب مراد ہے۔ اہل تورات تورات کے ساتھ بلائے جائیں گے۔ اور قرآن والے قرآن کے ساتھ بلائے جائیں گے۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ تم نے اپنی کتاب پر کیا عمل کیا ؟ اس کے اوامر کو کتنا اپنایا اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا تھا اس سے کتنے بچے رہے ؟ فائدہ : بعض لوگوں نے بِاِمَامِھِمْ کا ترجمہ بامھاتھم سے کیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بتایا ہے کہ قیامت کے دن لوگ ماؤں کے نام سے بلائے جائیں گے۔ یہ بات صحیح نہیں اول تو ام کی جمع امام نہیں آتی، دوسرے احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ باپوں کے نام سے بلائے جائیں گے۔ حضرت ابو الدرداء ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم قیامت کے روز اپنے ناموں کے ساتھ اور باپوں کے ناموں کے ساتھ بلائے جاؤ گے، لہٰذا تم اپنے نام اچھے رکھو۔ (رواہ ابو داؤد فی کتاب الادب) امام بخاری ؓ نے اپنی جامع صحیح میں باب باب ما یدعی الناس یوم القیامۃ باباءھم قائم کرکے صحیح حدیث سے ثابت کیا ہے کہ قیامت کے روز باپوں کے نام سے بلاوا ہوگا۔ معالم التنزیل میں ماؤں کے ناموں کے ساتھ پکارنے کے تین سبب بتائے گئے ہیں۔ لیکن یہ سب خود ساختہ ہیں جو محض روایت کی شہرت کی وجہ سے تجویز کیے گئے ہیں۔ چناچہ صاحب معالم التنزیل نے تینوں اسباب ذکر کرکے فرمایا ہے کہ والاحادیث الصحیحۃ بخلافہ یعنی صحیح احادیث اس مشہور قول کے خلاف ہیں۔ دوسری آیت میں فرمایا جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور زیادہ راہ گم کردہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا جس میں آسمان بھی ہیں اور زمین بھی ہے چاند سورج بھی ہیں لیل و نہار بھی ہیں اور پہاڑ بھی بحار و انہار بھی ہیں اور اشجار بھی، ان سب چیزوں میں دلائل موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ خالق ومالک ایک ہی ہے۔ یہ دلائل تکوینیہ ہیں ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا ان پر کتابیں نازل فرمائیں انہوں نے توحید کی دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نبوت اور رسالت کے اثبات کے لیے معجزات ظاہر فرمائے اور راہ حق کو خوب واضح فرما دیا۔ لیکن بہت سے لوگ قصداً اور ارادۃً دلائل تکوینیہ کو دیکھ کر ایمان نہ لائے۔ اور معجزات سامنے ہونے پر بھی متاثر نہ ہوئے۔ جیسا کہ کفر و شرک میں ڈوبے ہوئے تھے اسی طرح بدستور گمراہی میں رہنا پسند کیا اور اپنے آپ کو اندھا بنالیا۔ جس نے دنیا میں اپنے لیے گمراہ ہونے کو پسند کیا وہ آخرت میں بھی نابینا ہوگا۔ یعنی اسے وہاں کوئی راستہ نجات کا نہیں ملے گا۔ دنیا میں تو یہ بھی ہوسکتا تھا کہ جب تک زندہ ہے توبہ کرلے اور ایمان قبول کرلے لیکن جب مرگیا تو توبہ کا راستہ بھی بند ہوگیا۔ اور مزید گمراہ اور بےراہ ہوگیا کیونکہ اب نجات کا کوئی راستہ نہ رہا۔ لہٰذا جو دنیا میں اندھا بنا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اور وہاں نجات کا راستہ پانے کی کوئی تدبیر نہ ہوسکے گی۔ سورة حج میں ارشاد فرمایا (اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ) (کیا یہ لوگ زمین میں نہیں چلے پھرے تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن کے ذریعے سمجھتے یا ایسے کان ہوتے جن سے سنتے، سو بلاشبہ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں لیکن دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں) یعنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن دلوں کی بصیرت سے کام نہیں لیتے قصداً اور ارادۃً اندھے بنے رہتے ہیں۔ کفار و مشرکین دنیا میں دل کے اندھے ہیں اور آخرت میں بھی اس کے نتیجے میں اندھے ہوں گے اور نجات کی کوئی سبیل نہ پائیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ آنکھوں سے نابینا ہونے کی حالت میں اٹھائے جائیں گے۔ اسی سورت کے گیارہویں رکوع میں فرمایا (وَ نَحْشُرُھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ عُمْیًا وَّ بُکْمًا وَّ صُمًّا مَاْوٰیھُمْ جَھَنَّمُ کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰھُمْ سَعِیْرًا) (اور قیامت کے دن ہم انہیں اس حالت میں محشور کریں گے کہ چہروں کے بل اندھے، گونگے اور بہرے ہونے کی حالت میں چل رہے ہوں گے ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے جب وہ دھیمی ہوجائے گی تو ہم اسے اور زیادہ بھڑکا دیں گے) معلوم ہوا کہ مشرکین و کفار جب محشور ہوں گے تو آنکھوں سے اندھے اور زبانوں سے گونگے اور کانوں سے بہرے ہوں گے البتہ بعد میں زبان کو گویائی دے دی جائے گی اور سمع و بصر بھی واپس کردی جائیں گی دل کے اندھے ہو کر تو دنیا ہی سے گئے تھے ابتداءً محشور ہوں گے تو اس وقت آنکھوں سے بھی اندھے ہوں گے۔
Top