Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 70
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق كَرَّمْنَا : ہم نے عزت بخشی بَنِيْٓ اٰدَمَ : اولاد آدم وَحَمَلْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں سواری دی فِي الْبَرِّ : خشی میں وَالْبَحْرِ : اور دریا وَرَزَقْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَفَضَّلْنٰهُمْ : اور ہم نے اہنیں فضیلت دی عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : بہت سی مِّمَّنْ خَلَقْنَا : اس سے جو ہم نے پیدا کیا (اپنی مخلوق) تَفْضِيْلًا : بڑائی دیکر
اور یہ بات واقعی ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی میں اور سمندر میں سوار کیا۔ اور انہیں عمدہ چیزیں عطا فرمائیں اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
اس کے بعد تکریم بنی آدم کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہے (وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ ) (اور ہم نے انسان کو عزت دی) (وَحَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ) (اور ہم نے انہیں خشکی میں اور سمندر میں سوار کیا) (وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ) (اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں) (وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا) (اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔ ) اس آیت میں اول تو اجمالی طور پر بنی آدم کی تکریم بیان فرمائی کہ وہ ان صفات سے متصف ہے جو اس کے ساتھ خاص ہیں۔ قوت گویائی کا عطا کیا جانا فصیح وبلیغ ہونا مختلف اسالیب سے بیان کرنا کتابت کے ذریعہ مفہوم ادا کرنا احسن تقویم سے زینت پانا خوبصورت ہونا قد کا مستقیم ہونا قوت مدرکہ سے متصف ہونا اس کے ذریعہ چیزوں کو پہچاننا خبیث اور طیب میں امتیاز کرنا، بہت سی مخلوقات کا اس کے لیے مسخر ہونا عقل و فہم کے ذریعہ ممتاز ہونا زمین اور زمین کے اوپر جو کچھ ہے اسے آباد کرنا زمین کو باغ و بہار بنانا طرح طرح کی عمارات بنانا اور نئی نئی مصنوعات ایجاد کرنا اور ان سے متنفع ہونا سیارات میں سفر کرنا طیارات میں اڑنا بلندیوں میں جانے کے لیے راکٹ بنانا یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو انسان ہی کے ساتھ خاص ہیں اور ان سے انسان کا مکرم اور مشرف ہونا ظاہر ہے۔ اجمال کے بعد کچھ تفصیل بتائی اور ارشاد فرمایا (وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ) اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا خشکی میں سواری کے جانور ہیں انسان ہاتھی جیسی مخلوق پر بھی سواری کرتا ہے اور اب تو طرح طرح کی سواریاں وجود میں آگئی ہیں اور سمندر میں بڑے بڑے جہاز چلتے ہیں۔ جن میں انسان سفر بھی کرتے ہیں اور بار برداری میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایک براعظم کی چیزیں دوسرے براعظم میں پہنچنے کا ذریعہ ہیں ان سب چیزوں میں بھی انسان کی تکریم اور تشریف ہے اور یہ منافع اور فوائد انسان ہی کے ساتھ خاص ہیں۔ (وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ) اور ہم نے بنی آدم کو عمدہ چیزیں عطا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح بھی مشرف و مکرم فرمایا کہ اسے پاکیزہ عمدہ اور نفیس چیزیں عطا فرمائیں۔ ان میں اچھے اچھے کھانے اور نفیس لباس اور عمدہ مفروشات (بچھانے کی چیزیں) اور طرح طرح کی استعمالی چیزیں ہیں۔ لفظ الطیبات جمع ہے طیب کی اس کے معنی میں حلال ہونا، عمدہ ہونا، اچھا ہونا، نفیس ہونا، سب کچھ آجاتا ہے۔ اور یہاں چونکہ خاص کر ما کو لات کا ذکر نہیں ہے اس لیے دیگر نعمتوں کو بھی یہ لفظ الطیبات شامل ہے۔ (وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا) (اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی) تکریم کے بعد تفضیل کا مستقل تذکرہ فرمایا۔ اس میں فضیلت جسمانی اور روحانی اخروی و دنیاوی اشتغال بعبادۃ اللّٰہ والتقرب الیہ اور ہر خیر داخل ہے اور ایک بہت بڑی بات یہ ہے کہ انسانوں ہی میں سے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث ہوئے جن میں افضل الانبیاء بھی ہیں ﷺ اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) ساری مخلوق سے افضل ہیں۔ اور یہ انسان کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ اس کی جنس میں افضل الخلائق وجود میں آئے۔ چونکہ آیت شریفہ میں یہ نہیں ہے کہ بنی آدم کے ہر ہر فرد کو دوسری مخلوق پر فضیلت دی گئی اس لیے یہ اشکال پیدا نہیں ہوتا کہ انسانوں میں کافر بھی ہیں وہ تو دوزخ میں جائیں گے انہیں کون سی فضیلت حاصل ہوئی، پھر چونکہ تفضیل عام ہے دنیاوی نعمتوں کو بھی شامل ہے اس لیے ان نعمتوں کے اعتبار سے تو سبھی انسان دوسری مخلوق کے مقابلہ میں فضیلت پائے ہوئے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ بنی آدم ساری مخلوق سے افضل ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت دی ہے لہٰذا فرشتے جو عامتہ المسلمین سے افضل ہیں اس پر بھی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ بنی آدم میں جو ایمان والے ہیں ان میں اور فرشتوں میں باہمی کیا تفاضل ہے اس تفضیل کی تفصیل عقائد کی کتابوں میں مذکور ہے۔
Top