Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور تو اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہ ہو، بلاشبہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال ہوگا
جس بات کا پتہ نہیں اس کے پیچھے پڑنے اور زمین پر اتراتے ہوئے چلنے سے ممانعت یہ تین آیات ہیں پہلی آیت میں اس بات پر تنبیہ فرمائی کہ جس بات کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، اس کی جامعیت بہت سے اعمال کو شامل ہے اس نصیحت پر دھیان نہ دینے کی وجہ سے جو اعمال صادر ہوتے ہیں معاشرہ میں جو بدمزگی پیدا ہوتی ہے اور ایک دوسرے کی آبرو ریزی ہوجاتی ہے مختصر الفاظ میں ان سب کی ممانعت آگئی، غلط حدیثیں بیان کرنا خود حدیثیں وضع کرنا جھوٹے راویوں سے حدیثیں لینا اور انہیں آگے بڑھانا کسی بھی شخص کے بارے میں محض اٹکل سے یا سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کچھ کہہ دینا تہمت رکھ دینا یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو دینی اعتبار سے گمراہی کا ذریعہ بنتی ہیں اور دنیاوی اعتبار سے آپس میں بغض اور دشمنی پھیلاتی ہیں صرف گمان سے اٹکل پچو کوئی بات ثابت نہیں ہوتی سورة الحجرات میں فرمایا (اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ) (بعض گمان گناہ ہوتے ہیں) اور غیبت کرنا تو اس بات کا یقین ہوتے ہوئے بھی حلال نہیں ہے کہ فلاں شخص نے فلاں گناہ کیا ہے یا فلاں شخص میں فلاں عیب ہے پھر بھلا محض اٹکل سے یا خود سے بنا کر کسی کے بارے میں یوں کہہ دینا کہ اس نے یوں کیا ہے یا کہا ہے کیسے حلال ہوسکتا ہے ؟ صاحب معالم التنزیل تحریر فرماتے ہیں۔ قال قتادہ لا تقل رایت ولم ترسمعت ولم تسمعہ وعلمت ولم تعلمہ، وقال مجاھد لا ترم احدا بما لیس لک بہ علم، قال القتیبی، لا تتبعہ بالحدس والظن وھو فی اللغۃ اتباع الاثر یقال، قفوت فلانا اقفوہ وقفیتہ واقفیتہ اذا اتبعت اثر۔ پھر ارشاد فرمایا (اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلًا) کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں باز پرس ہوگی، اللہ تعالیٰ شانہ نے جو یہ اعضا دئیے ہیں یوں ہی نہیں دئیے کہ ان کو جیسے چاہیں اور جہاں چاہیں استعمال کریں جس ذات پاک نے عطا فرمائے ہیں اس نے ان سب کے استعمال کرنے کے مواقع بھی بتائے ہیں اور وہ اعمال بھی بتائے ہیں جن سے ان کو محفوظ رکھنا لازم ہے کہاں دیکھے اور کیا بات سنے اور اپنی قوت فکریہ کو کہاں خرچ کرے، ان سب کی تفصیلات احادیث شریفہ میں موجود ہیں، کسی نے چوری کرلی، کسی کو ظلماً مارا، حساب غلط لکھ کر یا جھوٹا بل بنا کر خیانت کردی یا کسی ایسے مرد یا کسی عورت سے مصافحہ کرلیا جس سے مصافحہ کرنا جائز نہیں تو اس نے اپنے ہاتھ پاؤں کو غیر شرعی امور میں استعمال کیا، بائیں ہاتھ سے کھایا اور داہنے ہاتھ سے استنجا کیا یہ بھی ہاتھ کا غلط استعمال ہے۔ زبان سے کوئی بیجا بات کی کفر کا کلمہ کہا کسی کی غیبت کی کسی پر تہمت دھری گالی دی جھوٹ بولا یہ سب زبان کا غلط استعمال ہوا، کسی شخص نے گانا سنا، باجوں کی آواز کی طرف کان لگانا غیبتیں سنتا رہا یہ کان کا غلط استعمال ہوا، کسی شخص نے ایسی جگہ نظر ڈالی جہاں دیکھنا یا نظر ڈالنا ممنوع تھا، بد نظری سے کسی کو دیکھ لیا کسی کے ستر پر نظر ڈالی آنکھوں کو کسی بھی طرح گناہوں میں استعمال کیا تو یہ سب آنکھوں کا غیر جگہ استعمال ہوگا جہاں استعمال کرنا ممنوع تھا، کوئی شخص گناہ کے لیے کہیں چل کر گیا تو اس نے اپنے پاؤں کا غلط استعمال کیا، حدیث شریف میں ہے کہ آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا دیکھنا زنا کرنا ہے اور کان بھی زنا کرتے ہیں ان کا زنا سننا ہے اور زبان بھی زنا کرتی ہے اس کا زنا بات کرنا ہے اور ہاتھ بھی زنا کرتا ہے اس کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں بھی زنا کرتا ہے اس کا زنا چل کر جانا ہے اور دل خواہش کرتا ہے اور گناہوں کی آرزو کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے یعنی موقعہ لگ جاتا ہے تو شرم گاہ گناہوں میں استعمال ہوجاتی ہے ورنہ شرم گاہ کا زنا ہو نہیں پاتا لیکن اس سے پہلے دوسرے اعضاء زنا کرچکے ہوتے ہیں اور ان کا گناہ صاحب اعضاء کے ذمہ پڑجاتا ہے کیونکہ انہیں اسی نے استعمال کیا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 22) حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن بن جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن بن جاتا ہوں : (1) جب بات کرو تو سچ بولو (2) وعدہ کرو تو پورا کرو (3) جب تمہارے پاس امانت رکھ دی جائے تو اسے ادا کرو (4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (5) اپنی آنکھوں کو نیچی رکھو (6) اپنے ہاتھوں کو (بےجا استعمال سے) روکے رکھو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 415) فُؤَاد : دل کو کہتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور بہت بڑا عطیہ ہے جو زندگی کا ذریعہ ہے سورة ملک میں فرمایا (وَھُوَ الَّذِیْ اَنْشَاَ کُمْ وَ جَعَل لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْءِدَۃَ قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ) (آپ فرما دیجیے کہ اللہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا فرمایا اور تمہارے لیے کان آنکھیں بنائیں اور دل عطا فرمائے تم کم شکر ادا کرتے ہو) یہ دل ہی تو ہے جس کے ذریعے جسم میں خون رواں اور دواں ہے اور قوت فکریہ سوچ سمجھ ہوش گوش کا آلہ ہے، دل کی جو نعمت عظیمہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے اس کو بےجا استعمال کرنا غیر شرعی امور میں اس کی قوتوں کو صرف کرنا گناہوں کے لیے تدبیریں کرنا یہ سب دل و دماغ کا غلط استعمال ہے اپنی زندگی میں انسان آزاد نہیں ان سب اعضاء کے بارے میں قیامت کے دن باز پرس ہوگی کہ ان کو کہاں لگایا اور کن کاموں میں استعمال کیا یہ اعضاء یہاں دنیا میں تو فرمانبردار ہیں لیکن قیامت کے دن مخالفانہ گواہی دیں گے۔ سورة نور میں فرمایا (یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس عمل کی گواہی دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے) رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو حفاظت اعضاء (از معاصی) کے لیے یہ دعا بتائی۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ سَمْعِیْ وَشَرِّ بَصَرِیْ وَشَرِّلِسَانِیْ وَشَرِّ قَلْبِیْ وَشَرِّمَنِّیِیْ (اے اللہ میں آپ سے اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں اور اپنی زبان اور اپنے دل اور اپنی منی کے شر سے پناہ مانگتا ہوں) کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ یہ میرے اعضاء ہیں جیسے چاہوں استعمال کروں۔ تو خود اپنا نہیں ہے تو اور تیرے اعضاء سب اللہ جل شانہ کی مخلوق اور مملوک ہیں، میدان آخرت میں کٹ حجتی کام نہ دے گی، اعمال نامہ لکھا ہوا سامنے ہوگا لہٰذا اپنے نفس کو اپنے قلب کو اپنے اعضاء کو پاک اور صاف لے جاؤ یہ سب اعضاء اللہ تعالیٰ شانہ کا عطیہ ہیں ان کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
Top