Al-Quran-al-Kareem - As-Saff : 12
یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ یُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُۙ
يَغْفِرْ لَكُمْ : بخش دے گا تمہارے لیے ذُنُوْبَكُمْ : تمہارے گناہوں کو وَيُدْخِلْكُمْ : اور داخل کرے گا تم کو جَنّٰتٍ : باغوں میں تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ : ان کے نیچے سے نہریں وَمَسٰكِنَ : اور گھروں (میں طَيِّبَةً : پاکیزہ فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ : ہمیشگی کے باغوں میں ذٰلِكَ الْفَوْزُ : یہی ہے کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
وہ تمہیں تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اور رہنے کی پاکیزہ جگہوں میں، جو ہمیشہ رہنے کے باغوں میں ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَ نْھٰرُ :”یعفر“ اور ’ ’ یدخل“ پر جزم ”تومنون“ اور ”تجاھدون“ کا جواب ہونے کی وجہ سے آئی ہے ، کیونکہ وہ امر کے معنی میں ہیں اور امر کے جواب میں مضارع آئے تو اس پر جزم آتی ہے۔ 2۔ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ :”مسکن طیبۃ“ کا خاص طور پر اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ آدمی کی پسندیدہ ترین چیزوں میں اس کا مسکن بھی ہے جسے چھوڑے بغیر جہاد ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے پسندیدہ مساکن چھوڑنے کے عوض ”مسکن طیبۃ“ کی بشارت سنائی ، جن میں دوام کی خوبی بھی ہے ، جب کہ دنیا کے مساکین کسی کے پاس رہنے والے نہیں۔ سورة ٔ توبہ میں فرمایا :(قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہ ُ بِاَمْرِہٖط وَ اللہ ُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ) (التوبۃ : 24)”کہہ دے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات ، جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کردو ، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا“۔ 2۔ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ : خبر ”الفوز العظیم“ پر الف لام سے حصر کا مفہوم پیدا ہورہا ہے ، یعنی فوز عظیم صرف یہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنت کے سوا کوئی اور چھوٹی کامیابی بھی ہے ، بلکہ ”العظیم“ کا لفظ صرف اس کامیابی کی عظمت کے بیان کے لیے آیا ہے ، ورنہ کامیاب صرف وہ ہے جو آخرت میں کامیاب ہے ، کوئی دوسرا حقیقت میں کامیاب ہے ہی نہیں ، جیسا کہ فرمایا :(فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَط وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ) (آل عمران : 185)”پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں“۔
Top