Al-Quran-al-Kareem - Al-An'aam : 14
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ هُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُ١ؕ قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَغَيْرَ : کیا سوائے اللّٰهِ : اللہ اَتَّخِذُ : میں بناؤں وَلِيًّا : کارساز فَاطِرِ : بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : زمین وَهُوَ : اور وہ يُطْعِمُ : کھلاتا ہے وَلَا يُطْعَمُ : اور وہ کھاتا نہیں قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْٓ اُمِرْتُ : بیشک مجھ کو حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں اَوَّلَ : سب سے پہلا مَنْ : جو۔ جس اَسْلَمَ : حکم مانا وَ : اور لَا تَكُوْنَنَّ : تو ہرگز نہ ہو مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
کہہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی دوست بناؤں جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے، حالانکہ وہ کھلاتا ہے اور اسے نہیں کھلایا جاتا۔ کہہ بیشک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا شخص بنوں جو فرماں بردار بنا، اور تو ہرگز شریک بنانے والوں سے نہ ہو۔
قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا : ”ولی“ کا معنی دوست بھی آتا ہے، مالک و مدد گار اور معبود و کارساز بھی، یہاں اس کا معنی مالک و مدد گار اور معبود و کارساز ہے، یعنی وہ زمان و مکاں کا خالق ہی نہیں بلکہ اسے باقی رکھنے والا اور چلانے والا بھی وہی ہے، اسے کسی سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں، باقی سب اسی کا دیا ہوا کھانے والے اور ہر لحاظ سے اس کے محتاج ہیں۔ اس ایک جملے سے مشرکین نے اللہ کے سوا جتنے معبود بنا رکھے تھے، ان سب کی نفی ہوجاتی ہے۔ مزید دیکھیے سورة ذاریات (56 تا 58)۔ قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ۔۔ : کیونکہ میں اس کا رسول ہوں اور رسول کا کام یہ ہے کہ تمام بندوں سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اپنے مالک کے احکام کو مانے۔ اور (وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْن) کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شرک میں مبتلا ہوتا ہے تو ہوتا پھرے، آپ کا یہ کام نہیں کہ اس لعنت میں پڑنے کا خیال بھی اپنے ذہن میں لائیں۔
Top