Al-Quran-al-Kareem - Al-Waaqia : 65
لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ
لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَجَعَلْنٰهُ : البتہ ہم کردیں اس کو حُطَامًا : ریزہ ریزہ فَظَلْتُمْ : تو رہ جاؤ تم تَفَكَّهُوْنَ : تم باتیں بناتے
اگر ہم چاہیں تو ضرور اسے ریزہ ریزہ کردیں، پھر تم تعجب سے باتیں بناتے رہ جاؤ۔
1۔ لَوْنَشَآئُ لَجَعَلْنٰـہُ حُطَامًا۔۔۔۔۔:”حطاما“”حطم یحطم حطما“ (ض) (توڑنا) سے مشق ہے ، بمعنی ”محطوم“ ، جیسے ”فتاتا“ ”فت“ سے اور ”جذاذا“ ”جذ“ سے مشتق ہے۔ سب کا معنی ”ریزہ ریزہ کیا ہوا“ ہے۔ ”فظلتم“ اصل میں باب ”سمع“ سے ”فظلتم“ ہے ، پہلا لام تخفیف کے لیے حذف کردیا ہے۔ (دیکھئے طہٰ : 97)”تفکھون“ اصل میں ’ ’ تتفکھون“ ہے ، ایک تاء تخفیف کے لیے حذف کردی گئی ہے۔ ”تفکۃ“ کا اصل معنی ”ایک پھل سے دوسرے پھل کی طرف منتقل ہونا“ ہے ، پھر ایک بات سے دوسری کی طرف منتقل ہونے میں بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ یہاں کھیتی برباد ہونے کے بعد طرح طرح کی باتیں کرنا مراد ہے۔ ”مغرمون“ غرم ، تاوان اور چٹی کو کہتے ہیں ، باب افعال سے اسم مفعول کی جمع ہے، تاوان ڈالے گئے لوگ۔ 2۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں : ”کھیتی کو چورا چورا یا ریزہ ریزہ کردینے کی بھی کئی صورتیں ہیں ، مثلاً جس زمین میں بیج ڈالا گیا اس میں اللہ تعالیٰ شور پیدا کر دے ، فصل کمزور اور زرد پیدا ہو اور پوری طرح بار آور نہ ہو ، یا فصل اگنے کے بعد اسے کیڑا لگ جائے ، یا کسی راضی یا سماوی آفت ، مثلاً کہر اور شدید بارش وغیرہ سے فصل کی نشو و نما رک جائے اور لہلہاتے کھیت زرد پڑجائیں تو کیا تم میں سے کسی کو یہ اختیار ہے کہ فصل کو ان مصیبتوں سے بچا سکے ؟ اور اگر تم خود اللہ کی مہربانی سے پیدا ہوگئے اور اللہ تعالیٰ ہی کی مہربانی سے تمہیں کھانے کو ملتا ہے تو پھر اس کے سامنے تمہاری اکڑ اور سرتابی کا کیا مطلب ہے ؟ اس صورت میں تم طرح طرح کی باتیں ہی بناتے رہ جاتے ہو کہ ہمارا تو بیج بھی ضائع ہوگیا ، خرچے کی چٹی پڑی ، محبت بھی ضائع ہوئی اور آئندہ کھانے کو بھی کچھ نہ ملا ، ہم تو مارے گئے۔ یہ بات تمہیں پھر بھی نصیب نہیں ہوتی کہ اللہ کی طرف رجوع کرو اور اسے اللہ کی طرف سے تنبیہ سمجھو“۔ (القرآن)
Top