Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 12
اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیْرًا
اِذَا : جب رَاَتْهُمْ : وہ دیکھے گی انہیں مِّنْ : سے مَّكَانٍ : جگہ بَعِيْدٍ : دور سَمِعُوْا : وہ سنیں گے لَهَا : اسے تَغَيُّظًا : جوش مارتا وَّزَفِيْرًا : اور چنگھاڑتا
جب وہ انھیں دور جگہ سے دیکھے گی تو وہ اس کے لیے سخت غصے کی اور گدھے کی سی آواز سنیں گے۔
اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ۔۔ : جہنم جب ان کافروں کو بہت دور سے دیکھے گی تو وہ جہنم کی ایسی آواز سنیں گے جو شدید غصے والی اور گدھے کی آواز جیسی ہوگی۔ اس وقت جہنم کے غصے کا حال سورة ملک (6 تا 8) میں بیان ہوا ہے۔ اس سے جہنم کا صاحب شعور ہونا ثابت ہوتا ہے، اس کے علاوہ بھی کئی آیات و احادیث سے جہنم کا صاحب شعور ہونا، غصے ہونا، گدھے جیسی آواز نکالنا، کلام کرنا سب کچھ ثابت ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ) [ ق : 30 ] ”جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی ؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ مزید ہے ؟“ اور صحیح بخاری میں جنت اور جہنم کے آپس میں جھگڑنے کا ذکر آیا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے جہنم کے اندر قدم (پاؤں) رکھنے پر اس کے قط قط (بس بس) کہنے کا ذکر ہے۔ [ دیکھیے بخاري، التفسیر، باب قولہ : (و تقول ھل من مزید) : 4848، 4849 ] اور بخاری ہی میں جہنم کے اللہ تعالیٰ سے اپنی شدید گرمی کی شکایت کرنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے سال میں دو سانس نکالنے کی اجازت ملنے کی حدیث موجود ہے۔ [ دیکھیے بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنہا مخلوقۃ : 3260 ] جہنم کے شعور، اس کی تندی اور سرکشی کے لیے دیکھیے سورة فجر (23) کی تفسیر۔ بعض عقل پرست حضرات ان تمام آیات و احادیث کو مجاز پر محمول کرتے ہیں، مگر اہل السنہ اسے حقیقت مانتے ہیں، کیونکہ مجاز اس وقت مانا جاتا ہے جب حقیقت ناممکن ہو۔ اللہ تعالیٰ کا جہنم کو شعور، رؤیت اور کلام عطا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اگر بےجان حنانہ (ستون) کے رونے کی آواز صحابہ کرام ؓ سن سکتے ہیں تو جہنمی جہنم کے غصے کی آواز کیوں نہیں سن سکتے اور جہنم انھیں دور سے کیوں نہیں دیکھ سکتی ؟ اور اگر اللہ تعالیٰ گوشت کے ایک ٹکڑے (زبان) کو بولنے کی قوت عطا کرسکتا ہے تو وہ کسی بھی چیز میں یہ قوت کیوں پیدا نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے قریب مسلمانوں اور یہودیوں کی جنگ میں غرقد کے سوا ہر درخت اور پتھر مومن کو بول کر بتائے گا کہ یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اسے قتل کر دے۔ [ دیکھیے مسلم، الفتن و أشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتی۔۔ : 2922 ] اور ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ ، لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِْنْسَ ، وَ حَتّٰی تُکَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَۃُ سَوْطِہِ وَ شِرَاکُ نَعْلِہِ وَ تُخْبِرُہُ فَخِذُہُ بِمَا أَحْدَثَ أَھْلُہُ بَعْدَہُ) [ ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : 2181، وقال الألباني صحیح ] ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا سرا اور جوتے کا تسمہ کلام کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے اہل نے اس کے بعد کیا گناہ کیا ہے۔“ عقل پرست حضرات ان تمام مقامات پر تاویل کرتے جائیں تو اکثر آیات و احادیث کھلونا بن کر رہ جائیں گی، جن سے یہ لوگ جس طرح چاہیں گے کھیلیں گے اور جو مطلب چاہیں گے نکالتے رہیں گے۔
Top