Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 60
وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ نُخَوِّفُهُمْ١ۙ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لَكَ : تم سے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب اَحَاطَ : احاطہ کیے ہوئے بِالنَّاسِ : لوگوں کو وَمَا جَعَلْنَا : اور ہم نے نہیں کیا الرُّءْيَا : نمائش الَّتِيْٓ : وہ جو کہ اَرَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دکھائی اِلَّا : مگر فِتْنَةً : آزمائش لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالشَّجَرَةَ : ور (تھوہر) کا درخت الْمَلْعُوْنَةَ : جس پر لعنت کی گئی فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَنُخَوِّفُهُمْ : اور ہم ڈراتے ہیں انہیں فَمَا يَزِيْدُهُمْ : تو نہیں بڑھتی انہیں اِلَّا : مگر (صرف) طُغْيَانًا : سرکشی كَبِيْرًا : بڑی
اور جب ہم نے تجھ سے کہا کہ بیشک تیرے رب نے لوگوں کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہم نے وہ منظر جو تجھے دکھایا، نہیں بنایا مگر لوگوں کے لیے آزمائش اور وہ درخت بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔ اور ہم انھیں ڈراتے ہیں تو یہ انھیں بہت بڑی سرکشی کے سوا زیادہ نہیں کرتا۔
وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاط بالنَّاسِ : لوگوں سے مراد کفار مکہ ہیں اور ان کا احاطہ کرلینے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنا پورا زور لگانے کے باوجود محمد ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور نہ آپ کی دعوت کو پھیلنے سے روک سکے۔ اس سے مقصود آپ ﷺ کو حوصلہ دلانا ہے کہ آپ بےخوف و خطر اپنی دعوت پیش کرتے رہیے، ان لوگوں کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کیجیے، یہ آپ کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ سب پوری طرح ہماری گرفت میں ہیں۔ rnۭ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ : ”اَلرُّویَا“ ”رَأَی یَرَی“ (ف) کا مصدر ہے، آیت میں مذکور ”لاتی ارینک“ سے مراد زمین اور آسمانوں کی وہ عجیب و غریب چیزیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے اسراء و معراج کی رات اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ نے اسراء و معراج کی رات جو کچھ دیکھا ہم نے اسے لوگوں کے لیے فتنہ اور آزمائش ہی بنایا، تاکہ آزمائش ہوجائے کہ کون قوی ایمان والا اور سلیم القلب ہے اور کون ضعیف ایمان والا اور مریض القلب۔ سو مضبوط ایمان والوں کو اسے ماننے میں کوئی تردد نہیں ہوا، چناچہ وہ امتحان میں کامیاب ہوگئے اور کمزور ایمان والے اور ایمان سے محروم لوگ کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ ایک ہی رات میں مکہ سے بیت المقدس اور ساتوں آسمانوں کے عجائبات دیکھ کر واپس بھی آجائیں ؟ یہ ناممکن ہے۔ سو وہ امتحان میں ناکام ہوگئے۔ ”اَلرُّویَا“ کا لفظ اکثر خواب میں دیکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی آنکھوں سے دیکھنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں بیداری میں آنکھوں سے دیکھنا مراد ہے اور اس کی دلیل خود یہ آیت ہے۔ کیونکہ اگر آپ ﷺ کہتے کہ میں نے یہ سب کچھ خواب میں دیکھا ہے تو نہ کسی کو تعجب ہوتا اور نہ کوئی فتنہ و امتحان ہوتا، کیونکہ خواب میں ہر شخص کو ناممکن و محال چیزیں دکھائی دے سکتی ہیں۔ امتحان یہی تھا کہ صرف مضبوط اہل ایمان تسلیم کرسکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو یہ سب کچھ رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں دکھانے پر قادر ہے۔ ابن عباس ؓ نے تصریح فرمائی : (ھِيَ رُؤْیَا عَیْنٍ أُرِیَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ أُسْرِيَ بِہِ إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ) [ بخاری، المناقب، باب المعراج۔۔ : 3888 ] ”یہ آنکھوں سے دیکھا ہوا منظر تھا جو رسول اللہ ﷺ کو اس رات دکھایا گیا جب آپ کو راتوں رات بیت المقدس لے جایا گیا۔“ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ : ابن عباس ؓ کی روایت جو اس سے پہلے فائدے میں بیان ہوئی اس میں انھوں نے اس کی تفسیر زقوم کے درخت سے کی ہے۔ قرآن مجید میں ”شَجَرَتَ الزَّقُّوْم“ کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے، سورة صافات (62 تا 66) اور سورة دخان (43 تا 46) میں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر لوگوں کے لیے آزمائش کے طور پر کیا گیا، کیونکہ ایمان سے محروم لوگ مان ہی نہیں سکتے کہ بھڑکتی ہوئی آگ کی تہ میں کوئی درخت اگ سکتا ہے، اس کے برعکس اہل ایمان کو اسے ماننے میں کوئی تردد نہیں ہوتا، کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، جبریل امین اور رب العالمین کبھی غلط بیانی نہیں کرتے اور آگ میں درخت پیدا کرنا، یا ابراہیم ؑ کے لیے آگ کو ٹھنڈی اور سلامتی والی بنادینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ یہاں زقوم کو شجرۂ ملعونہ کہا گیا ہے، اس کا معنی شجرۂ مذمومہ ہے، یعنی قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ۔۔ : یعنی ہم کفار کو مختلف طریقوں سے ڈراتے ہیں، مگر اس سے انھیں بہت بڑی سرکشی میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
Top