Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 59
وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ١ؕ وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا١ؕ وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا
وَمَا مَنَعَنَآ : اور نہیں ہمیں روکا اَنْ : کہ نُّرْسِلَ : ہم بھیجیں بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ كَذَّبَ : جھٹلایا بِهَا : ان کو الْاَوَّلُوْنَ : اگلے لوگ (جمع) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی ثَمُوْدَ : ثمود النَّاقَةَ : اونٹنی مُبْصِرَةً : دکھانے کو (ذریعہ بصیرت فَظَلَمُوْا بِهَا : انہوں نے اس پر ظلم کیا وَ : اور مَا نُرْسِلُ : ہم نہیں بھیجتے بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّا : مگر تَخْوِيْفًا : ڈرانے کو
اور ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا کہ ہم نشانیاں دے کر بھیجیں مگر اس بات نے کہ پہلے لوگوں نے انھیں جھٹلادیا اور ہم نے ثمود کو اونٹنی واضح نشانی کے طور پر دی تو انھوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے۔
وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر، جو آخری امت ہے، اپنے خاص فضل اور رحمت کا ذکر فرمایا ہے۔ اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے بہت سی چیزیں نشانی کے طور پر دکھانے کا مطالبہ کیا (دیکھیے بنی اسرائیل : 90 تا 93) مگر اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سنت رہی ہے کہ نشانی دکھانے کے بعد اگر کوئی قوم ایمان نہ لائے تو اسے عذاب کے ساتھ نیست و نابود کردیا جاتا ہے، جیسا کہ قوم ثمود کے مطالبے پر بطور نشانی اونٹنی دی گئی، انھوں نے اس پر ظلم کیا تو ”صَیْحَۃٌ“ (چیخ) اور ”رَجْفَۃٌ“ (زلزلے) سے تمام کفار ہلاک کردیے گئے۔ ہمارے رسول ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی نشانی نہیں دی، تاکہ اس امت کے لیے ایمان لانے کی مہلت باقی رہے۔ اگر موجودہ کفار ایمان نہ لائیں تو ان کی اولاد میں سے لوگ ایمان لاسکیں۔ ہماری امت کو عطا ہونے والی نشانی میں دو وصف ہیں، جو پہلے کسی نبی کی نشانی میں نہیں تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة عنکبوت (50، 51)۔ وَمَا نُرْسِلُ بالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا : یعنی عذاب سے ڈرانے کے لیے، کیونکہ اگر وہ نہیں ڈریں گے تو ان پر عذاب نازل ہوجائے گا۔
Top