Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 53
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّعِبَادِيْ : میرے بندوں کو يَقُوْلُوا : وہ کہیں الَّتِيْ : وہ جو ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے اچھی اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان يَنْزَغُ : فساد ڈالتا ہے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان كَانَ : ہے لِلْاِنْسَانِ : انسان کا عَدُوًّا : دشمن مُّبِيْنًا : کھلا
اور میرے بندوں سے کہہ دے وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بیشک شیطان ان کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔ بیشک شیطان ہمیشہ سے انسان کا کھلا دشمن ہے۔
ۧوَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ۔۔ : ”نَزَغَ یَنْزَغُ“ (ف) کا معنی چوکا مارنا، فساد اور بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے جو عہد لینے کا ذکر فرمایا اس میں یہ حکم تھا : (وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْـنًا) [ البقرۃ : 83 ] ”اور لوگوں کے لیے اچھی بات کہو۔“ یہاں ہماری امت کو احسن یعنی سب سے اچھی بات کہنے کا حکم دیا۔ ”میرے بندوں“ سے مراد امت مسلمہ ہے، کیونکہ وہی اس کی غلامی اور بندگی کرنے والے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس سے احسن بات کہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسلم ہو یا کافر، دوست ہو یا دشمن، ہر ایک سے ایسی بات کرنا لازم ہے جس سے بہتر بات آدمی نہ کہہ سکتا ہو۔ اس کے لیے لازماً اسے بولنے سے پہلے سوچنا ہوگا۔ ایک عالم نے کہا کہ میں نے جب بھی اپنی طرف سے اچھی سے اچھی بات کہی، پھر اس پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس سے بھی بہتر بات کہی جاسکتی تھی۔ یہاں احسن بات نہ کہنے کا نقصان بیان فرمایا کہ زبان سے ناہموار بات نکلنے پر شیطان آپس میں جھگڑا اور دشمنی ڈال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کا ایک دوسرے سے دلی بغض یا قطع تعلق سخت ناپسند ہے۔ بہت سی احادیث میں اس کی وعید موجود ہے۔ اسی طرح کافر سے احسن بات نہ کہنے کا نتیجہ اس کا اسلام سے مزید دوری ہوگا۔ اس لیے اس کی طرف سے برائی کا جواب بھی احسن طریقے سے دینا لازم ہے۔ دیکھیے سورة مومنون (96 تا 98) جب کافر کی طرف سے برائی کا جواب احسن طریقے سے دینا لازم ہے تو پھر مسلمان کی طرف سے ہونے والی برائی کا دفاع احسن طریقے سے کرنا تو بالاولیٰ لازم ہوگا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ احسن بات اور احسن رویے سے جواب کا فائدہ یہ ہوگا کہ دشمن بھی دلی دوست بن جائے گا۔ مگر یہ نعمت اسی کو ملتی ہے جو صبر کرے اور بڑا صاحب نصیب ہو، جس کی علامت یہ ہے کہ وہ شیطان کی ہر اکساہٹ اور غصہ دلانے پر اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے گا اور غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے گا۔ دیکھیے سورة حم السجدہ (34 تا 36) شیطان کی انسان سے کھلی عداوت کے ذکر کے لیے دیکھیے سورة فاطر (6) ، اعراف (11 تا 27) اور سورة بقرہ میں قصۂ آدم و ابلیس۔ ہمیشہ سے دشمنی کا مفہوم ”کَانَ“ سے ظاہر ہے اور آدم کو سجدہ نہ کرنے کے وقت سے لے کر قیامت تک اس کی دشمنی کا دوام اس کا شاہد ہے۔
Top