Al-Quran-al-Kareem - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور بلاشبہ یقینا ہم نے آسمان میں کئی برج بنائے اور اسے دیکھنے والوں کے لیے مزین کردیا ہے۔
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَيَّنّٰهَا للنّٰظِرِيْنَ : ”بُرُوْجًا“ ”بُرْجٌ“ کی جمع ہے، جو اصل میں بڑے بلند و بالا اور مزین قلعہ یا محل کو کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ) [ النساء : 78 ] ”تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں پالے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔“ اس کا اصل معنی نمایاں اور ظاہر ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات ؓ سے فرمایا : (وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى) [ الأحزاب : 33 ] ”اور پہلی جاہلیت کے زینت لگا کر نمایاں ہونے کی طرح زینت لگا کر ظاہر نہ ہو۔“ مزید دیکھیے سورة بروج کی پہلی آیت۔ پچھلی آیات رسالت کے بعد اب توحید کا بیان شروع ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل کے لیے پہلے عالم بالا کا ذکر فرمایا ہے، پھر زمین کا، پھر ان کے درمیان کی چیزوں کا اور اس کے بعد آدم و ابلیس کا تذکرہ ہے۔ چناچہ فرمایا ہم نے آسمان میں عظیم الشان اور نمایاں برج بنائے ہیں، یعنی ستاروں کے نمایاں جھرمٹ، سورج اور چاند کی منازل جس سے رات کو ٹھنڈک والی روشنی اور دن کو تیز روشنی اور حرارت کے حصول کے علاوہ وقت، دنوں، مہینوں اور سالوں کا تعین ہوتا ہے۔ انسانوں، حیوانوں اور پودوں کی نشوونما، ان کی بقا اور بےانتہا ضرورتوں کا بندوبست ہوتا ہے، سمندر کا مدوجزر اور بیشمار فوائد جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں، انھی سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان سب کو بنانے والا، چلانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے ؟ کسی کا دعویٰ ہے تو اسے سامنے لاؤ۔ بعض اہل علم نے ”بُرُوْجاً“ ان مقامات کو بھی بتایا ہے جہاں آسمان کے محافظ فرشتے رہتے ہیں۔ وَّزَيَّنّٰهَا للنّٰظِرِيْنَ : اللہ تعالیٰ کی قدرت و توحید کے دلائل میں سے ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے آسمان کو چاند، ستاروں اور سورج سے مزین کردیا ہے۔ رات کو ستاروں اور چاند کے ساتھ آسمان کی زینت کا نظارہ صحیح طرح وہاں ہوتا ہے جہاں مصنوعی روشنیاں نہ ہوں۔ یہ صرف ایک آسمان ہی پر موقوف نہیں، اس لامحدود قدرت والے نے جو چیز بھی پیدا کی خوب صورت پیدا کی اور اس میں زینت کا خاص اہتمام فرمایا، چھوٹے سے چھوٹے کیڑے سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق سب کچھ ہی کمال خوبصورت بنایا، فرمایا : (الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ) [ السجدۃ : 7 ] ”جس نے اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی۔“ اسی لیے رسول اللہ ﷺ صاف ستھرا اور بن سنور کر رہنے کو پسند کرتے تھے، فرمایا : (إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : 91 ] ”بیشک اللہ خوبصورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔“ وہ سادھوؤں، جوگیوں یا راہبوں اور بیوقوف صوفیوں کی طرح گندے اور بدزیب ہو کر رہنے کو پسند نہیں کرتا۔ وہ دس چیزیں جنھیں رسول اللہ ﷺ نے فطرت کا حصہ قرار دیا، مثلاً کلی، مسواک، زیر ناف کی صفائی وغیرہ، یہ اسی نظافت اور جمال کو کامل رکھتی ہیں۔
Top