Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 153
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاَنَّ : اور یہ کہ ھٰذَا : یہ صِرَاطِيْ : یہ راستہ مُسْتَقِيْمًا : سیدھا فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس پر چلو وَلَا تَتَّبِعُوا : اور نہ چلو السُّبُلَ : راستے فَتَفَرَّقَ : پس جدا کردیں بِكُمْ : تمہیں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ بِهٖ : حکم دیا اس کا لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کرو
اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور راستوں پر نہ چلنا کہ (ان پر چل کر) خدا کے راستے سے الگ ہوجاؤ گے۔ ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
معتبر سند سے مسند امام احمد بن حنبل ‘ نسائی مستدرک حاکم اور مسند بزار میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک روز ایک سیدھی لکیر کھینچ کر فرمایا یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے اور اس لکیر کے دائیں بائیں اور لیکریں کھینچ کر فرمایا ان سب راستوں پر شیطان بیٹھا ہے اور اپنی طرف لوگوں کو بلاتا ہے پھر آپ نے یہ میت پڑھی۔ معتبر سند سے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدھے راستہ کی مثال یوں سمجھائی کہ ایک سیدھا راستہ ہے اور اس کے ادھر ادھر در و دیواریں ہیں ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں ان دروازوں پر پڑے ہیں اور راستہ کے سرے پر ایک شخص سیدھے راستہ پر بلارہا ہے اور ایک شخص کہہ رہا ہے دیکھو ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ نہ کھولنا نہیں تو سیدھے راستے سے بہک جاؤ گے وہ راستہ تو اسلام ہے اور دیواریں حرام حلال کی وہ حدیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے شریعت میں قائم کی ہیں اور دروازے شرع کی ممنوعات ہیں اور راستے کے سرے پر بلانے والا قرآن شریف ہے اور دروازوں سے روکنے والی اللہ تعالیٰ کی وہ نصیحت ہے جس کا اثر ہر مسلمان کے دل میں پیدا ہو کر اس اثر سے آدمی گناہ سے رک جاتا ہے ترمذی میں عمر وبن عاص ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ تو بہتر 72 فرقے اختلاف سے ہوگئے میری امت کے تہتر 73 فرقے ہوں گے اور سوا ایک فرقے کے اور سب دوزخی ہیں صحابہ نے پوچھا حضرت وہ نجات پانے والا کو نسافرقہ ہے آپ نے فرمایا جس پر میں اور میرے صحابی ہیں ترمذی نے اگرچہ اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے لیکن ترمذی اور ابوداؤد میں ابوہریرہ ؓ کی صحیح حدیث ہے جس سے اس حدیث کو تقویت ہوجاتی ہے ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اسلام کی سیدھی سڑک میں سے اور کجی کے راستے اختلاف کے سبب سے پھوٹ گئے ہیں جن سب پر شیطان مسلط ہے ممنوعات شرعیہ کے دروازے فقط ایک پردہ کی آڑ میں ہیں نجات کا راستہ فقط ایک ہی ہے جس راستہ پر خود صاحب وحی ﷺ اور صحابہ تھے نجات کہ خواستگار ہر مسلمان کو لازم ہے کہ ادھر ادھر نہ بھٹکے اور نجات کے راستہ کی مضبوط پکڑے اور خوب یقین کرلے کہ مخبر صادق صاحب وحی ﷺ نے جن نجات کے راستہ کا پتہ بتلایا ہے وہ یہی ہے کہ ہر عقیدے اور ہر عمل میں آدمی آنحضرت اور صحابہ کے قدم بقدم چلا جاوے خدا تعالیٰ ہر مسلمان کے دل میں اس نصیحت الہیہ کا اثر پیدا کرے جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں آیا ہے اور ہر مسلمان کو وہ سیدھا راستہ چلاوے جس کا ذکر اس آیت میں اور جس کی تفسیر حدیث میں ہے ھذا کا اشارہ انہی باتوں کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر کی آیتوں ہیں ہے۔ اوپر کی آیتوں میں خاص خاص باتوں کے علاوہ بعہد اللہ ایسا ایک عام حکم ہے کہ قرآن شریف کے تمام امر و نہی کا مجموعہ ہے اور اوپر یہ گذر چکا ہے کہ نیک کاموں کے کرنے اور بدکاموں سے بچنے کی جتنی صحیح حدیثیں ہیں وہ سب اس مجموعہ قرآن کی گویا تفسیر ہیں تو اب یوں کہنا چاہئے کہ ھذا کا اشارہ تمام احکامی آیتوں اور حدیثوں کی طرف ہے اور یہ بھی کہنا چاہئے کہ جو بات اس اشارہ کے دائرہ سے باہر ہے وہ ٹیڑھا راستہ ہے نجات کا سیدھا راستہ دہی ہے جو اس اشارہ کے دائرہ کے اندر ہے۔
Top