Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 154
ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ اٰتَيْنَا : پھر ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب تَمَامًا : نعمت پوری کرنے کو عَلَي : پر الَّذِيْٓ : جو اَحْسَنَ : نیکو کار ہے وَتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی وَّهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ بِلِقَآءِ : ملاقات پر رَبِّهِمْ : اپنا رب يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لائیں
(ہاں) پھر (سن لو کہ) ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی تھی تاکہ ان لوگوں پر جو نیکو کار ہیں نعمت پوری کردیں اور (اس میں) ہر چیز کا بیان (ہے) اور ہدایت (ہے) اور رحمت ہے تاکہ (انکی امت کے) لوگ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر ہونیکا یقین کریں۔
(154 ۔ 155) ۔ اوپر کی آیتوں میں فرمایا تھا اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ جن چیزوں کو تم لوگوں نے اپنی اٹکل سے حرام ٹھہرا رکھا ہے اصل میں وہ چیزیں حرام نہیں ہیں بلکہ پہلے صاحب شریعت نبی نوح (علیہ السلام) سے لیکر اب تک حرام وہ چیزیں ہیں جو ان آیتوں میں تم لوگوں کو جتلائی گئی ہیں اب ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے پہلی آیتوں میں جو پیغام الٰہی ہے اس کے پہنچانے کے بعد پھر یہ پیغام بھی ان لوگوں کو پہنچا دیا جاوے کہ شریعت موسوی سے پہلے کہ شریعتوں کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی تو اس میں بھی علاوہ اور تفصیلی احکام کے ان چیزوں کے حرام ہونے کا حکم موجود ہے جن کا ذکر پچھلی سب شریعتوں میں تھا اور وہی حکم اوپر کی آیتوں میں ہے سورة قصص میں آوے گا وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتَابَ مِنْ بَعْدِ مَا اَھْلَکْنَا الْقُُرَونَ الْاَ ْولٰی بَصَائِرَ لِلنَّاسِ (28: 43) جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نوح سے لے کر فرعون تک پچھلے لوگوں کے عام عذابوں سے ہلاک ہوجانے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی ہے جس کے سبب سے تورات میں تفصیلی احکام شرعی کے علاوہ پچھلے لوگوں کی ہلاکت کے قصے ایسے ہیں جن سے نبی اسرائیل کے دل میں ایک عبرت پیدا ہوسکتی ہے ان آیتوں میں تماما علی الذی احسن تفصیلا لکل شیء جو فرمایا سورة قصص کی آیت گویا اس کی پوری تفسیر ہے حاصل مطلب ہے یہ کہ تفصیلی احکام شرعی اور پورے پچھلے لوگوں کی ہلاکت کے قصے ملا کر تو بات کو ایسی حسن ترتیب سے نازل کیا گیا ہے جس کی ہدایت کا اثر بنی اسرائیل کے دلوں پر پورا پڑیگا اور تورات کو نازل ہونے کے بعد عام نافرمانی اور عام عذاب کی نوبت نہ آوے گی اسی واسطے فرمایا کہ تورات کا نازل ہونا بنی اسرائیل کے حق میں ایک رحمت الٰہی ہے آخر کو یہ جو فرمایا کہ شاید اس قدر رحمت کے بعد یہود کے دلوں میں ایک دن اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کے وقت پوری سرخروئی حاصل کریں اس لفظ شاید کے فرمانے میں بڑی پیشین گوئی ہے جس کا ظہور مابعد میں یہ ہوا کہ عبداللہ بن شاید کے فرمانے میں بڑی پیشین گوئی ہے جس کا ظہور مابعد میں یہ ہوا کہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں کے دل میں تو یہ یقین پیدا ہوگیا لیکن باقی کے یہود نے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کے یقین کو اپنے دلوں سے بالکل نکال ڈالا جس سے اصلی تورات کے احکام کی پابندی ان میں سے اٹھ گئی پہلے تو انہوں نے اصلی تورات کی آیتوں میں تبدل تغیر کیا اور پھر ایک تورات کے یہ تین نسخے۔ عبرانی یونانی۔ سامری بن گئے۔ اب ان میں باہمی یہ اختلاف ہے کہ سامری فرقے کے لوگ اپنے نسخے کو صحیح بتلاتے ہیں اور ان کے مقابل کے لوگ اپنے نسخوں کو صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر وبن العاض ؓ کی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے مطلب پر دو صحابیوں کا جھگڑا ہوا اس جھگڑے میں غل شور تک کی نوبت آئی اس غل کی آواز سن کر آنحضرت ﷺ حجرے سے باہر آئے اور بڑے غصے سے آپ نے فرمایا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ تم سے پہلے لوگ کتاب آسمانی کے مطلب میں اسی طرح کا جھگڑا اور اختلاف ڈال کر خراب اور برباد ہوگئے اس مکی آیت میں یہود کی آیندہ کی حالت کی جو پشین گوئی ہے اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا کہ اس قرآن یپیشین گوئی کے موافق یہود نے تورات کے معنے اور لفظوں میں تک اختلاف ڈالا کہ اس اختلاف نے ان کی عقبے کو برباد کردیا اب آگے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی اسی طرح نبی آخر الزمان محمد رسول ﷺ پر یہ بابرکت کتاب نازل فرمائی جس کا نام قرآن ہے اہل مکہ اگر اس قرآن کی مخالفت کو چھوڑ کر اس کے احکام کی پوری پابندی کریں گے تو شاید ان کو اللہ کے رحم کی امید کا موقعہ مل سکے گا۔ اس لفظ شاید کے فرمانے میں یہ پیشین گوئی ہے کہ اگرچہ ظاہر میں بعضے لوگوں کا شمار قرآن کی پیروی کرنے والوں میں ہوجاویگا لیکن قیامت کے دن ان کو اللہ کے رحم سے اس لئے محرومی ہوجاوے گی کہ ان کا خاتمہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر سے چند آدمیوں کو فرشتے کھینچ کر دوزخ کی طرف جب لیجانے لگیں گے تو آنحضرت ﷺ ان فرشتوں سے کہیں گے یہ تو میرے اصحاب میں سے ہیں وہ فرشتے آنحضرت ﷺ کو جواب دیں گے کہ آپ کی وفات کے بعد یہ لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ آیت کی پیشین گوئی کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی دوسری حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا علاوہ اور معجزوں کے قرآن ہی مجھ کو ایک ایسا معجزہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے جس کے سبب سے بڑی امت کے نیک لوگوں کی تعداد اور امتوں کے نیک لوگوں سے قیامت کے دن زیادہ ہوگی آیت ہیں قرآن کو برکت کی کتاب جو فرمایا یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔
Top