Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 135
قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ١ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
قُلْ : فرمادیں يٰقَوْمِ : اے قوم اعْمَلُوْا : کام کرتے رہو عَلٰي : پر مَكَانَتِكُمْ : اپنی جگہ اِنِّىْ : میں عَامِلٌ : کام کر رہا ہوں فَسَوْفَ : پس جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لو گے مَنْ : کس تَكُوْنُ : ہوتا ہے لَهٗ : اس عَاقِبَةُ : آخرت الدَّارِ : گھر اِنَّهٗ : بیشک لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم
کہہ دو کہ لوگو ! تم اپنی جگہ عمل کیے جاؤ میں (اپنی جگہ) عمل کیے جاتا ہوں۔ عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ آخرت میں (بہشت) کس کا گھر ہوگا۔ کچھ شک نہیں کہ مشرک نجات نہیں پانے کے۔
بعض مفسروں نے اس میت کو درگذر کی آیتوں میں شمار کیا ہے اور جہاد کی آیت سے اس آیت کو منسوخ کہا ہے لیکن درگذر کی آیتوں کی یہ شان نہیں ہے جس طرح اس میت کی شان ہے کیونکہ درگذر کی آیتوں میں اس طرح کی تنبیہ کہا ہے جیسے اس آیت میں کافروں کو خطاب کر کے آخر کو فرمایا ہے فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ اس لیے صحیح قول یہی ہے کہ آیت تنبیہ عذاب کی ہے جس کا دنیوی ظہور بدر کی لڑائی میں ہوا اور عقبے کے عذاب کا ظہور وقت مقررہ پر ہوگا غرض جہاد کی آیت سے یہ آیت منسوخ نہیں ہے اس کے اوپر گذر چکا ہے کہ جہاد کی آیت سے کوئی درگذر کی آیت منسوخ نہیں ہے حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ اوپر کی آیتوں میں پچھلی قوموں کی بربادی کا حال قریش کی مہلت کا حال ان سب باتوں کا حال ذکر فرما کر اس آیت میں فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ ان سب باتوں کا حال سننے کے بعد بھی تم لوگوں اگر اپنی سرکشی سے باز نہیں آتے تو اچھا تم اپنی حالت پر رہو میں اپنی حالت پر رہتا ہوں تھوڑے دنوں میں انجام ہر ایک کا تم کو معلوم ہوجاوے گا مگر اتنی بات یاد رہے کہ جس اللہ نے تم کو تمہاری سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا اس کی تعظیم میں تم دوسروں کو جو شریک کرتے ہو یہ بڑے ظلم اور بڑی ناانصانی کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے جب تک اپنی بردباری سے تم کو چھوڑ رکھا ہے اس مہلت کو غنیمت جانو آخر کار ایسے ناانصافوں کا کبھی کچھ بھلا نہ ہوگا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے آیت کے نازل ہونے کے تھوڑے عرصہ کے بعد بدر کی لڑائی کا موقعہ پیش آیا۔ بد کی لڑائی سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جتلا دیا تھا کہ اس لڑائی میں بڑے بڑے سرکش قریش میں کے مارے جاویں گے چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی کے شروع ہونے سے ایک رات پہلے آنحضرت ﷺ نے قریش میں کے ان سرکشوں کے نام بتلائے تھے جو اس لڑائی میں مارے جانے والے تھے بلکہ مارے جانے کے بعد جہاں جہاں ان کی لاشیں پڑی تھیں وہ مقامات بھی بتلائے تھے۔ انس بن مالک ؓ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے مارے جانے کے بعد ان کی لاشوں کو انہیں مقامات پر ہم لوگوں نے پایا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ایک بڑے وبال کے ٹل جانے کی طرح یہ تو ان لوگوں کی دنیا کی موت کا حال ہے جس کی خوشخبری اللہ تعالیٰ نے پہلے سے اپنے رسول کو سنادی تھی عقبے کا حال ان لوگوں کا یہ ہوا کہ ان کے مرتے ہی سخت عذاب نے ان کو آن گھیرا اور وہ عذاب اللہ کے رسول کو نظر آگیا اسی واسطے اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کو لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے عذاب کا وعدہ سچا پایا چناچہ مسند امام احمد ‘ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم میں انس بن مالک ؓ وغیرہ سے جو روایتیں ہیں ان میں اس قصہ کا ذکر ہے یہ حدیث آیت کے ٹکڑے انہ لا یفلح الظلمون کی گویا تفسیر ہیں جن سے مکہ کے ناانصاف مشرکوں کا دین ودنیا کا انجام معلوم ہوتا ہے جو اور مشرکوں کے لیے عبرت کا مقام ہے :۔
Top