Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 56
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : بھیجا ہم نے آپ کو اِلَّا مُبَشِّرًا : مگر خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
اور (اے محمد) ہم نے آپ کو صرف خوشی اور عذاب کی خبر سنانے کو بھیجا ہے
56۔ 57:۔ اوپر کی آیت میں جن لوگوں کا ذکر تھا ‘ جب وہ ہر وقت کی قرآن کی نصیحت کو سن کر شرک سے باز نہیں آتے تھے تو اس سے اللہ کے رسول ﷺ کو بڑا رنج ہوتا تھا ‘ اس لیے فرمایا اے رسول اللہ کے رنج کی کوئی بات نہیں ہے تمہارا کام اتنا ہی ہے کہ شرک سے باز آنے والوں کو عقبیٰ کی بہبودی کی خوشی اور شرک سے باز نہ آنے والوں کو آخرت کے عذاب کا ڈر سنا دو ‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جو لوگ نیک ٹھہر چکے ہیں ‘ ان کے دل پر ضرور قرآن کی نصیحت کا اثر ہوگا اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں بد قرار پاچکے ہیں ‘ وہ مرتے دم تک برے کاموں کو اچھا جانتے رہیں گے اور قرآن کی نصیحت کا کچھ اثر ان کے دل پر پیدا نہ ہوگا ‘ پھر فرمایا ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ میں اس نصیحت کی کچھ مزدوری تم لوگوں سے نہیں مانگتا تاکہ اس مزدوری کے بار سے تم کو قرآن کی نصیحت کا سننا شاق گزرے ‘ پابند شریعت بن کر عقبیٰ کی بہبودی کی نیت سے کوئی شخص صدقہ و خیرات کرے ‘ وہ اور بات ہے مگر مجھ کو موافق ‘ مخالف کسی سے نصیحت کی مزدوری کا لینا جائز نہیں ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل ‘ اب جس قابل ہر ایک شخص پیدا ہوا ہے ‘ مرتے دم تک ویسے ہی کام اس سے بن آتے ہیں ‘ اس حدیث کے آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ مشرکین مکہ میں سے جو لوگ اللہ کے علم غیب میں بد اور دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل ٹھہر چکے تھے ‘ اگرچہ ہر وقت ان کو قرآن کی نصیحت سنائی گئی اور یہی جتلایا گیا کہ اس نصیحت پر کوئی مزدوری تم لوگوں سے نہیں مانگی جاتی ‘ لیکن مرتے دم تک وہ شرک سے باز نہ آئے جس جرم کی سزا ہمیں ہمیشہ کے لیے دوزخی قرار پاکر دنیا سے اٹھ گئے۔
Top