Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 55
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُهُمْ وَ لَا یَضُرُّهُمْ١ؕ وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِیْرًا
وَيَعْبُدُوْنَ : اور وہ بندگی کرتے ہیں مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَنْفَعُهُمْ : نہ انہیں نفع پہنچائے وَلَا يَضُرُّهُمْ : اور نہ ان کا نقصان کرسکے وَكَانَ : اور ہے الْكَافِرُ : کافر عَلٰي : پر۔ خلاف رَبِّهٖ : اپنا رب ظَهِيْرًا : پشت پناہی کرنیوالا
اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیز کی پرستش کرتے ہیں کہ جو نہ انکو فائدہ پہنچا سکے اور نہ ضرر اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زور مارتا ہے
55۔ انسان کو اس کی ضرورت کی چیزوں کو پیدا کرنے کا ذکر اوپر فرما کر اس آیت میں فرمایا کہ یہ مشرک لوگ بڑے نادان ہیں کہ اپنے پیدا کرنے والے کی خاص عبادت کہ چھوڑ کر پتھر کی ایسی مورتوں کو اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں شریک کرتے ہیں کہ جن کے اختیار میں نہ کسی کا کچھ فائدہ ہے نہ نقصان اللہ تعالیٰ کے اختیار میں انسان کا جو فائدہ ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ اس نے انسان کو انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح اپنی قدرت سے پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اور اسی کے اختیار میں انسان کا جو کچھ نقصان ہے اس کا حال بھی ان لوگوں کو جتلا دیا گیا ہے کہ اس صاحب قدرت نے قوم نوح سے لے کر قوم فرعون تک بہت سی نافرمان قوموں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا اور کوئی اس کے بھیجے ہوئے عذاب کے نقصان کو کسی طرح ٹال نہ سکا ‘ وَکَانَ الْکَافِرُ عَلٰی رَبِّہٖ ظَھِیْرًا کی تفسیر سلف نے دو طرح سے بیان کی ہے ‘ ایک تو یہ کہ ظہیر کے معنی مددگار بنتے ہیں کیونکہ شیطان یہی چاہتا ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں ‘ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ظہیر کو ظہر سے لیا جاوے جس کے معنی پیٹھ کے ہیں اس معنی کا حاصل کسی چیز سے بےپروائی کرنے اور اس کو پیٹھ کے پیچھے ڈال دینے کا ہے ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کے بہکانے سے ان منکر شریعت لوگوں نے احکام الٰہی کو پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کیونکہ مجبور کر کے کسی کو راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے ‘ انتظام الٰہی کے موافق دنیا کو نیک وبد کے امتحان کے لیے پیدا کیا گیا ہے ‘ کسی کو مجبور کرنے سے وہ امتحان کا موقع باقی نہیں رہتا ‘ حافظ ابو جعفر ابن جریر نے ان دونوں طرح کے سلف کے قولوں میں سے پہلے قول کو قوی ٹھہرایا ہے اور فارسی ترجمہ میں بھی اسی قول کو لایا ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود کی حدیث 1 ؎ کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ‘ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو بھول کر جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گنہگار نہیں ‘ جن لوگوں کا ذکر آیت میں ہے ان کی گنہگاری کا حال اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (1 ؎ نیز مشکوٰۃ باب الکبائر و علامات النفاق۔ )
Top