Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 73
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ١ۖۗ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : وہ قریب تھا لَيَفْتِنُوْنَكَ : کہ تمہیں بچلا دیں عَنِ : سے الَّذِيْٓ : وہ لوگ جو اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتَفْتَرِيَ : تاکہ تم جھوٹ باندھو عَلَيْنَا : ہم پر غَيْرَهٗ : اس کے سوا وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّاتَّخَذُوْكَ : البتہ وہ تمہیں بنا لیتے خَلِيْلًا : دوست
اور اے پیغمبر ﷺ جو وحی ہم نے تمہاری طرف بھیجی قریب تھا کہ یہ (کافر) لوگ تم کو اس سے بچلا دیں تاکہ تم اس کے سوا اور باتیں ہماری نسبت بنالو۔ اور اس وقت وہ تم کو دوست بنا لیتے۔
73: تفسیر ابن ابی حاتم میں جو روایت ہے اس میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اس آیت کی شان نزول میں یوں فرماتے ہیں کہ امیہ بن خلف اور ابوجہل بن ہشام اور چند اشخاص قریش آنحضرت کے پاس آئے اور کہا کہ آپ ہمارے بتوں کو چھو لیں تو ہم آپ کے دین میں داخل ہوجائیں گے 1 ؎۔ مشرکین مکہ کی یہ خواہش ایسی تھی جس طرح کی ان کی ایک خواہش کا ذکر سورة یونس میں گزارا کہ وہ قرآن کی آیتوں کو بدل دینا چاہتے تھے شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں مشرکوں کی اس خواہش کا ذکر کیا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے 2 ؎۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے مکہ کے سب بتوں کو لکڑیاں مار مار کر زمین میں گرا دیا اور کوئی مشرک اپنے بتوں کی حمایت نہ کرسکا 3 ؎۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اے رسول اللہ کے اگرچہ یہ مشرک لوگ قرآن کی آیتوں کے بر خلاف تم سے اپنے بتوں کی بیجا عزت اور توقیر کرنا چاہتے ہیں اور ان کے دل میں یہ بھی ہے کہ اگر تم ان کا کہا مان لو تو بجائے دشمن کے یہ لوگ تمہارے دوست بن جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کار خانہ میں ہر کام کا وقت لوح محفوظ میں لکھا جاچکا ہے وقت مقررہ کے آنے تک یہ مشرک اپنی بیجا خواہشیں زبان پر لاتے ہیں وقت مقررہ کے آجانے پر تمہارے ہی ہاتھ سے اللہ تعالیٰ ان بتوں کی سب عزت و توقیر خاک میں ملا دے گا اور ان مشرکوں سے ان بتوں کی کچھ حمایت نہ ہوگی۔ 1 ؎ تفسیر الدر المثنور ص 194 ج 4۔ 2 ؎ تفسیر بہذاص 30 ج 3۔ 3 ؎ صحیح بخاری ص 614 ج 6 باب ابن رکز النبی ﷺ الرایتہ یوم الفتح۔
Top