Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 59
وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ١ؕ وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا١ؕ وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا
وَمَا مَنَعَنَآ : اور نہیں ہمیں روکا اَنْ : کہ نُّرْسِلَ : ہم بھیجیں بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ كَذَّبَ : جھٹلایا بِهَا : ان کو الْاَوَّلُوْنَ : اگلے لوگ (جمع) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی ثَمُوْدَ : ثمود النَّاقَةَ : اونٹنی مُبْصِرَةً : دکھانے کو (ذریعہ بصیرت فَظَلَمُوْا بِهَا : انہوں نے اس پر ظلم کیا وَ : اور مَا نُرْسِلُ : ہم نہیں بھیجتے بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّا : مگر تَخْوِيْفًا : ڈرانے کو
اور ہم نے نشانیاں بھیجنی اس لیے موقوف کردیں کہ اگلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی اور ہم نے ثمود کو اونٹنی (نبوت صالح کی کھلی) نشانی دی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم جو نشانیاں بھیجا کرتے ہیں تو ڈرانے کو۔
59:۔ معتبر سند سے نسائی مسند امام احمد بن حنبل مستدرک حاکم طبرانی وغیرہ میں جو شان نزول اس آیت کی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش نے ایک روز اکٹھے ہو کر آنحضرت سے کہا کہ آپ اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتے ہو اور پہلے انبیاء کو تو اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے معجزے دیئے تھے۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے تابع دریا کردیا۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے تابع ہوا کردی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرتے تھے اگر آپ بھی سچے نبی ہیں تو سر زمین مکہ کے پہاڑ دور ہٹا کر ہماری کھیتی کے لیے زمین نکال دو اور اس زمین میں کچھ نہریں کھیتی کو پانی پہنچانے کے لیے جاری کرا دو تو پھر شاید ہم میں سے کچھ لوگ مسلمان ہوجاویں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎ اور حضرت صالح کی اونٹنی کا ذکر یاد دلا کر فرمایا کہ جو نشانیاں یہ لوگ چاہتے ہیں وہ پتھر میں سے اونٹنی کے پیدا ہونے سے کچھ بڑھ کر نہیں ہیں لیکن ہمیشہ کے ملک شام کے سفر میں ان لوگوں نے قوم ثمود کی بستیوں کا حال دیکھا ہوگا کہ منہ مانگا معجزہ ظاہر ہونے کے بعد وہ لوگ ایمان نہ لائے تو ان کا انجام کیا ہوا اسی طرح منہ مانگے معجزہ کے بعد یہ لوگ بھی اگر ایمان نہ لائے تو قوم ثمود کی طرح غارت کردئیے جاویں گے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے یہی خواہش ظاہر کی کہ یا اللہ قریش کو فوری کوئی معجزہ نہ دیا جائے بلکہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ میں رفتہ رفتہ ان کو ہدایت کی باتیں سناؤں اور تیری طرف سے ان کو توفیق ہو۔ تھوڑی مدت میں مکہ فتح ہوا اور وہی آنحضرت ﷺ کی دعا کا از نمودار ہوگیا۔ صحیح حدیثوں اور صحابہ کے آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بستی میں جب لوگوں کی گناہ گاری بڑھ جاتی ہے تو خلاف عادت اللہ کی طرف سے کچھ خوف دلانے کی نشانیاں مثل قحط کا پڑنا یا بجلی کا گرنا یا وبا یا اور کسی عام بیماری کا پھیلنا یا زلزلہ کا آنا یا سورج چاند کو گرہن لگنا۔ اسی طرح اور نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ صحابہ ؓ کے زمانہ میں دستور تھا کہ اس طرح کی کوئی نشانی ظاہر ہو تو لوگ ڈر جاتے تھے اور عام لوگ توبہ اور استغفار کرنی چاہئے 2 ؎۔ غرض آنحضرت ﷺ کے ارشاد اور صحابہ ؓ کے دستور کے موافق بھی کوئی اس طرح کی خوف الٰہی کی نشانی ظاہر ہو تو بستی کے علماء کو چاہئے کہ عام لوگوں کو توبہ اور استغفار کی نصیحت کریں اور عام لوگوں کو چاہئے کہ خالص دل سے توبہ و استغفار کریں اور جان لیویں کہ ان کے گناہوں کی شامت سے وہ خوف کی نشانیاں ظاہر ہوئی ہیں اگر اس نشانی پر گناہ گاری سے باز نہ آویں گے تو اس سے بڑھ کر کوئی بلا آوے گی چناچہ اس آخری زمانہ میں لوگ ایک سال کے قحط اور وبا پر اپنی گنہگار سے باز نہیں آتے اسی واسطے قحط اور وبا ایک ہمیشہ کی فصلی بیماری ہوگئی ہے۔ مسند امام احمد صحیح مسلم مستدرک حاکم اور شعب الایمان بیہقی میں ابی بن کعب سے جو روایتیں ہیں 3 ؎ ان کا حاصل یہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ کسی بستی میں گناہ گار بڑھ جاتی ہے تو اللہ کی طرف سے کچھ خوف دلانے کی نشانی ظاہر ہوتی ہے اگر ان نشانیوں پر لوگ گناہ گاری سے باز نہیں آئے تو ان نشانیوں سے بڑھ کر کوئی آفت آتی ہے۔ 1 ؎ الدر المنثور ص 190 ج 4۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 130 صلوٰۃ الخسوف 12 منہ۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 19 جلد ہذا پر ملاخطہ ہو۔
Top