Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 58
وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ قَرْيَةٍ : کوئی بستی اِلَّا : مگر نَحْنُ : ہم مُهْلِكُوْهَا : اسے ہلاک کرنے والے قَبْلَ : پہلے يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن اَوْ : یا مُعَذِّبُوْهَا : اسے عذاب دینے والے عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت كَانَ : ہے ذٰلِكَ : یہ فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مَسْطُوْرًا : لکھا ہوا
اور کفر کرنے والوں کی کوئی بستی نہیں مگر قیامت کے دن سے پہلے ہم اسے ہلاک کردیں گے یا سخت عذاب سے معذب کریں گے یہ کتاب (یعنی تقدیر) میں لکھا جا چکا ہے۔
58:۔ اوپر ذکر تھا کہ مشرکین مکہ کو دنیا کی زندگی پر ایسا بھروسہ تھا کہ وہ مسخراپن سے قیامت کے آنے کی جلدی کرتے تھے اس لیے فرمایا کہ دنیا کی زندگی کسی طرح بھروسہ کے قابل چیز نہیں ہے۔ قیامت سے پہلے بعضے شہروں کے لوگ اپنی موت سے اور بعضوں کے طرح کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے اپنے علم غیب کے موافق وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور طبرانی میں ابوہریرہ ؓ اور عقبہ بن عامر ؓ سے جو روایتیں ہیں 1 ؎ ان کا حاصل یہ ہے کہ پہلے صور کے قریب جو شخص بیچنے کے لیے کپڑے کا تھان کھولے گا یا دودھ والے جانوروں کا دودھ دو ہے گا یہ سب کچھ یوں ہی پڑا رہے گا اور پہلے صور آواز سے تمام دنیا ہلاک ہوجائے گی ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ دنیا کے پیدا ہونے کے پچاس ہزار برس پہلے لوح محفوظ میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ بعض بستیوں کے لوگ اپنی موت سے اور بعض کے طرح طرح کے عذابوں سے اور آخر کو پہلے صور کی آواز سے غرض اسی طرح تمام دنیا ہلاک ہوجائے گی پھر ایسی ہلاک ہونے والی چیز پر بھروسہ کرکے جو لوگ عقبیٰ کے منکر ہیں یا اس سے غافل ہیں وہ بڑے نادان ہیں کیونکہ جہاں لوح محفوظ میں دنیا کا ہلاک ہونا لکھا ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ دنیا کے ہلاک ہوجانے کے بعد سزا وجزا کا دوسرا جہاں ضرور قائم ہوگا تاکہ دنیا کا پیدا کرنا بلا نتیجہ نہ رہے کسی کے انکار سے لوح محفوظ کا یہ لکھا کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔ 1 ؎ الترغیب والترہیب ص 392 ج 2 کتاب البعث واہوال یوم القمیہٰ 12 منہ۔
Top