Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 54
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا
رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يَرْحَمْكُمْ : تم پر رحم کرے وہ اَوْ : یا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُعَذِّبْكُمْ : تمہیں عذاب دے وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے تمہیں بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر وَكِيْلًا : داروغہ
تمہارا پروردگار تم سے خوب واقف ہے۔ اگر چاہے تو تم پر رحم کرے یا اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے۔ اور ہم نے تم کو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔
54۔ 55:۔ اوپر کی آیت میں مسلمانوں کو سخت کلامی سے منع فرما کر اس کے بعد اب مشرکوں کا حال بیان فرمایا کہ اے رسول اللہ کے مشرکین مکہ میں کے کچھ لوگ راہ راست پر نہ آویں تو اس کا کچھ بوجھ بار تمہارے ذمہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جس طرح بعضے نبیوں کی بزرگی اور فضیلت بعضوں پر ٹھہر چکی ہے اسی طرح یہ بات بھی ٹھہر چکی ہے کہ ان مشرکوں میں سے کچھ لوگ راہ راست پر آکر اللہ کی رحمت کے قابل ٹھہریں گے اور کچھ حالت کفر پر مر کر عذاب کے مستحق ہونگے۔ بدر کی لڑائی میں ابوجہل کا کفر کی حالت پر مرنا اور فتح مکہ پر ابوسفیان کا اسلام کی فضیلت کو حاصل کرنا مشرکین مکہ کی اس حالت کی تفسیر ہے جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ زبور میں امت محمدیہ کا جو حال ہے اس کا ذکر سورة الانبیاء میں آویگا اس واسطے امت محمدیہ کے لوگوں کے ذکر میں خاص طور پر زبور کا ذکر فرمایا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں معراج کی حدیثوں میں ہے کہ معراج کی رات آدم (علیہ السلام) اول آسمان پر تھے اور ابراہیم (علیہ السلام) ساتویں آسمان پر صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے چھ باتوں کو ذکر فرما کر یہ فرمایا ہے کہ ان چھ باتوں کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو سب انبیاء پر فضیلت دی ہے 1 ؎۔ یہ چھ باتوں کی پوری حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے۔ آیتوں میں بعضے انبیاء کو بعضوں پر فضیلت دینے کا جو ذکر ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے ‘ کہ بعضے انبیاء کو بعضوں پر اور نبی آخر الزمان ﷺ کو سب انبیاء پر اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے سورة بقرہ میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے امت کے لوگوں کو انبیا ( علیہ السلام) کی فضیلت میں بحث کرنے سے منع کیا ہے تاکہ اس بحث سے کسی نبی کی کسر شان نہ لازم آوے۔ صحیح بخاری ومسلم میں اس بحث سے ممانعت کی تفصیلی روایتیں ہیں 2 ؎۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 512 باب علامات النبوۃ۔ 2 ؎ مثلا دیکھئے مشکوٰۃ باب بدء الخلق (ذکر الانبیاء) فصل اول۔
Top