Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 53
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّعِبَادِيْ : میرے بندوں کو يَقُوْلُوا : وہ کہیں الَّتِيْ : وہ جو ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے اچھی اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان يَنْزَغُ : فساد ڈالتا ہے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان كَانَ : ہے لِلْاِنْسَانِ : انسان کا عَدُوًّا : دشمن مُّبِيْنًا : کھلا
اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
53:۔ اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے رسول مقبول ﷺ کی معرفت اپنے بندوں کو حکم فرمایا کہ تم اپنا برتاؤ اچھا رکھو ایسا نہ ہو کہ سخت کلامی سے شیطان تمہارے بیچ میں کود پڑے اور جھگڑا ڈال دے کیونکہ شیطان حضرت آدم اور بنی آدم کا صریح دشمن ہے احسن کی تفسیر میں مفسروں کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ نرمی اور آہستگی سے کلام کریں کوئی شخص کافر سے بھی سخت کلامی نہ کرے کیونکہ اس سے فساد پیدا ہوتا ہے اور ضعف اسلام کے زمانہ تک مشرکین اور اہل اسلام کے مابین کسی فساد کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے خباب ؓ کی حدیث ایک جگہ گز رچ کی ہے 1 ؎ کہ ہجرت سے پہلے مشرکین مکہ مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ شیطان بےوقت مشرکین اور اہل اسلام میں جھگڑا ڈلوانا چاہتا ہے اور ضعف اسلام کے زمانہ تک اللہ تعالیٰ کو درگزر منظور ہے اس واسطے مشرک لوگ نادانی سے اگر مسلمان لوگوں کے ساتھ سخت کلامی کریں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ نیک برتاؤ سے اس کو ٹال دیں۔ 1 ؎ تفسر مذاص 275 ج 3۔
Top