Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بےحیائی اور بری راہ ہے
32۔ 40:۔ اوپر کی آیتوں سے حق العباد کا ذکر چلا آتا ہے مثلا ماں باپ کا حق اولاد کو سمجھنا اور اولاد کا حق ماں باپ کو سمجھنا رشتہ داروں کا حق رشتہ داروں کو جاننا ایک کی ماں بہن بی بی سے دوسرا بدکاری کرے یا ایک کو دوسرا جان سے مار ڈالے یا ایک شخص اپنی اولاد اور مال چھوڑ کر مرجائے اور جس رشتہ دار کی پرورش میں وہ یتیم اولاد آوے وہ اس یتیم کا مال کھا اڑا دیوے یہ سب باتیں خدا کا گناہ ہونے کے سوا حق العباد میں رخنہ ڈالنے والی چیزیں ہیں اس واسطے اللہ تعالیٰ نے حق العباد کے ذکر کے سلسلہ میں زنا قتل بےتصرف مال یتیم خلاف عہد کم تولنے اور کم ناپنے اور جھوٹی شہادت اور اترانے کا ذکر ان آیتوں میں فرمایا دیا ہے تاکہ حق العباد میں جو باتیں کرنے کی ہیں وہ اور جو نہیں کرنے کی ہیں وہ ایک جگہ جمع ہوجاویں اسی واسطے ان آیتوں کے آخر میں فرمایا ہے کہ اس طرح کی وحی میں ایک حکمت الٰہی ہے اور شروع اس نصیحت کا اللہ تعالیٰ نے اپنے حق سے فرما کر بیچ میں حق العباد اور جو باتیں حق العباد کو مضر تھیں اس کا ذکر فرمایا اور پھر بحث کو اپنے حق پر ختم فرمایا تاکہ آدمی کی سمجھ میں آجاوے کہ سب سے بڑھ کر آدمی پر اللہ کا حق ہے جس نے اللہ کی عبادت میں شرک کے طور پر یا ریا کاری کے طور غیر کو شریک کیا وہ بڑا حق فراموش ہے اس نے اللہ کا حق کچھ بھی نہیں ادا کیا۔ صحیح بخاری ومسلم کے 1 ؎ حوالہ سے معاذ بن جبل ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے میں ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اور پھر اس حق کے ادا ہوجانے کے بعد بندوں کا حق یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ کے عذاب سے بچائے گا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس حق کو تاکید کے طور پر اس نصیحت میں دو دفعہ اس واسطے فرمایا ہے کہ اس نصیحت میں جن نیک کاموں کا ذکر ہے ان میں کوئی نیک کام بغیر اللہ کے اس حق کو ادا کرنے کے بارہ گاہ الٰہی میں نہ مقبول ہوسکتا ہے نہ ایسا حق فراموش آدمی دوزخ کے عذاب سے بچ سکتا ہے کس لیے کہ اللہ کی عبادت کرنے کے لیے اللہ کو پہچاننا ضرور ہے جو شخص اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتا ہے وہ سرے سے اللہ کی شان کو نہیں پہچانتا پھر ایسے شخص کا نیک عمل بارگاہ الٰہی میں کیونکر مقبول ہوسکتا ہے معتبر روایتوں میں اللہ کے رسول ﷺ نے شرم وحیا کے مقابلہ میں فاحشہ کے لفظ کا استعمال فرمایا ہے اس استعمال کے موافق بدکاری کو بےحیائی کا کام فرمایا۔ بدکاری سے آدمی کی نسل بگڑتی ہے اس لیے بدکاری کو بری راہ فرمایا۔ آگے کی آیت میں قتل ناحق کے ساتھ الا بالحق کی جو قید لگائی گئی ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ قصاص میں بیا ہے ہوئے بدکار مرد یا عورت یا اسلام کے بعد مرتد ہونے والے ان لوگوں کا قتل شریعت میں جائز ہے 2 ؎۔ عرب میں دستور تھا کہ شریف آدمی کے قصاص میں بہت سے لوگوں کو قتل کیا کرتے تھے اسی کو خون پر ہاتھ چھوڑنا فرمایا کہ مقتول کے وارث کو حاکم لوگ قصاص میں مدد دیویں اور قصاص کی حد سے بڑھ کر مقتول کے وارث کچھ زیادتی نہ کریں۔ یتیم کی حفاظت کی عہد کے پورا کرنے کی ‘ پورا تولنے کی ‘ بہتان کی ‘ اور اترانے کی ممانعت کی بہت سی صحیح حدیثیں ہیں جو گویا ان آیتوں کی تفسیر ہیں۔ آخر کو مشرکین مکہ کی نادانی کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ خود تو لڑکیوں سے یہاں تک گھبراتے ہیں کہ ان کو جیتا گاڑ دیتے ہیں اور نادانی سے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ یہ بہت بری بات ہے جس کا بہت بڑا خمیازہ ان کو ایک دن بھگتنا پڑے گا۔ 1 ؎ یعنی صفحہ سابقہ پر۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 299 کتاب القصاص۔
Top