Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 73
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِیْنَۙ
فَاَخَذَتْهُمُ : پس انہیں آلیا الصَّيْحَةُ : چنگھاڑ مُشْرِقِيْنَ : سورج
سو ان کو سورج نکلتے نکلتے چنگھاڑ نے آپکڑا۔
73۔ 85۔ جب لوط (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی ایک نہ سنی اور اپنی ہٹ دھرمی کئے گئے تو اللہ پاک نے فرشتوں کو حکم دے دیا کہ ان کو غارت کرو تو صبح ہوتے ہی جبرئیل (علیہ السلام) نے ایک ایسی چیخ ماری کہ لوگوں کے کلیجے دہل گئے اور پھر اس بستی کی تہ میں اپنے پر ڈال کر اکھیڑ لیا اور آسمان کی طرف لے جا کر وہاں سے الٹا گرا دیا اور پھر اوپر سے چھوٹے چھوٹے پتھر کے ریزے برسے جس سے ایک متنفس بھی جان بر نہ ہوسکا پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ اس قصہ میں عبرت کرنے والوں اور غورو فکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانی ہے۔ بعضے مفسروں نے للمتوسمین کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ عقلمندوں کے واسطے اس قصہ میں پتے ہیں اور ابو سعید ؓ کی حدیث ترمذی نے نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے اگرچہ ترمذی نے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث کو غریب کہا ہے 1 ؎۔ لیکن مسند بزار میں یہ حدیث انس بن مالک ؓ کی روایت 2 ؎ سے جو ہے اس کی سند معتبر ہے اور اسی مضمون کی حدیث ابن جریر نے بھی ابو سعید سے اور ثوبان ؓ سے روایت کی ہے اور حضرت انس ؓ سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے 3 ؎۔ پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ وہ بستی سدوم ملک شام کی طرف بو دار پانی کے چشمہ کی صورت میں آج تک باقی ہے پھر فرمایا کہ جو لوگ ایماندار ہیں اس قصے سے خدا کی نشانی پہچانتے ہیں پھر بن کے رہنے والی قوم شعیب کے لوگوں کا اور جحیر کے رہنے والی قوم ثمود حضرت صالح (علیہ السلام) کی امت کا قصہ مختصر طور پر ذکر فرما کر قریش کو یہ تنبیہ فرمائی کہ ایک دن قیامت ضرور آنے والی ہے تاکہ نیک و بد کی جزا و سزا ہو کر دنیا کا پیدا کیا جانا ٹھکانے سے لگے کیونکہ آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے کھیل تماشے کے طور پر نہیں پیدا کیا ہے اگر ان کے پیدا کرنے میں جزا و سزا کی حکمت کا انکار کیا جاوے تو ان کا پیدا کیا جانا کھیل تماشے کے طور پر ٹھہرتا ہے جو اللہ کی شان سے بہت بعید ہے سورت اعراف میں ترتیت وار پہلے ثمود کا اور پھر قوم لوط اور قوم شعیب کا قصہ تفصیل سے گزر چکا ہے یہاں یہ قصے قریش کی تنبیہ کے بلا ترتیب مختصر طور پر ذکر فرمائے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سورت اعراف کے مفصل قصے ان مختصر قصوں کی گویا تفسیر میں { فمآ اغنی عنہم ما کانوا یکسبون } اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیتی اور دودھ کے جن جانوروں کو یہ لوگ اپنی بڑی کمائی جانتے تھے اور اس کمائی کی حمایت میں انہوں نے معجزہ کی اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا آخر کو وہ کمائی ان لوگوں کے کچھ کام نہ آئی۔ بعضے مفسروں نے حکم جہاد اس آیت کو منسوخ کہا ہے لیکن یہ اوپر ہوچکا ہے کہ حسن خلق اور درگزر کی کوئی آیت حکم جہاد سے منسوخ نہیں ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کسی امر خلاف شریعت کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت جب اہل اسلام میں نہ ہو تو ایسے وقت پر زبانی وعظ و نصیحت کافی ہے 4 ؎۔ اس حدیث سے ان علماء کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ضعف اسلام کے وقت درگزر کا حکم قیامت تک باقی ہے اسی واسطے اللہ کے رسول نے ضعف اسلام کے وقت کسی امر خلاف شریعت کے ہاتھ مٹانے سے کی جگہ زبانی وعظ و نصیحت کو جائز رکھا ہے ورنہ منسوخ حکم کے موافق عمل کرنے کا آپ ہرگز حکم نہ دیتے۔ آیت کے اس ٹکڑے کا حاصل مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں کی تباہی کے قصے سنا کر ان مشرکین مکہ کی تنبیہ کردی گئی ہے اس پر بھی یہ لوگ اپنی شرارت سے باز نہ آویں تو ضعفی اسلام کے زمانے تک درگز کو کام میں لایا جاوے۔ 1 ؎ جامع ترمذی ص 140 ج 2 تفسیر سورت الحجر و تفسیر ابن کثیر 555 ج 2۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 555 ج 12 والدار المنثور ص 103 ج 4۔ 3 ؎ تفسیر ابن جریر ص 46۔ 47 ج 14۔ 4 ؎ صحیح مسلم ص 52 ج 1 باب بیان کون النہی عن المنکر الایمان الخ۔
Top