Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
مومنو ! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو
قول باری ہے (یآیھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وذروا مابقی من الربوٰ ان کنتم مؤمنین ۔ فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ۔ (a) اے ایمان والو ! خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ۔ اگر واقعی تم ایمان لائے ہو لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے) ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ آیت میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک معنی یہ ہے کہ ” اگر تم اللہ کے حکم کو قبول نہ کرو اور اس کے آگے جھک نہ جائو۔ “ اور دوسرا معنی یہ ہے کہ سود ترک کردینے کے حکم کے نزول کے بعد بھی لوگوں کے ذمہ اپنا باقی رہ جانے والا سود نہ چھوڑو تو سود کی تحریم کا اعتقاد رکھتے ہوئے بھی آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، قتادہ اور ربیع بن انس سے مروی ہے کہ جو شخص سود کھاتا ہو تو امام اس سے توبہ کا مطالبہ کرے اگر وہ سود خوری سے توبہ کرلے تو فیہا ورنہ اسے قتل کردے گا۔ یہ قول اس پر محمول ہے کہ وہ شخص سود کو حلال سمجھ کر اسے کھاتا ہو کیونکہ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص سود کی تحریم کا اعتقاد رکھتے ہوئے سود خوری کرے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ قول باری (فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ) (a) ایسے لوگوں کو کافر قرار دینے کے وجوب کا تقاضا نہیں کرتا کیونکہ اس فقرے کا کفر سے کم درجے کی معصیتوں پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ زید بن اسلم نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت معاذ ؓ کو روتے دیکھا۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت معاذ ؓ نے فرمایا : میں نے حضور ﷺ سے یہ سنا ہے کہ (الیسیر من الریاء شرک ومن عاد اولیاء اللہ فقد بارز اللہ بالمحاربۃ (a) تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے۔ اور جو شخص اللہ کے دوستوں سے دشمنی رکھے گا وہ اللہ کو جنگ کی دعوت دے گا) حدیث معاذ ؓ نے اس پر لفظ محاربت کا اطلاق کیا اگرچہ اس نے کفر نہ بھی کیا ہو۔ اسباط نے سدی سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ ؓ کے آزاد کردہ غلام صبیح سے ، انہوں نے زید بن ارقم ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ ، حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ سے فرمایا (انا حرب لمن حاربتم وسلم لمن سالمتم (a) جس کے ساتھ تمہاری جنگ ہے میری بھی اس کے ساتھ صلح ہے) قول باری ہے (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فساداً (a) ۔۔۔ ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں بس یہ ہے ۔۔۔ ) فقہاء اس پر متفق ہیں کہ یہ حکم الہ ملت یعنی مسلمانوں پر جاری ہوتا ہے اور یہ نشان ان مسلمانوں کو لگ جاتا ہے جو کہ ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم کردیں۔ لیکن آیت کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کا اطلاق ان لوگوں پر ہوسکتا ہے جن کے گناہ عظیم ہوں اور کھلم کھلا معصیت والے افعال کے مرتکب ہورہے ہوں اگرچہ یہ افعال کفر سے کم درجے کے ہوں۔ قول باری (فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ) (a) درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف معصیت کی بڑائی اور سنگینی کی اطلاع ہے۔ اور یہ کہ ایسی معصیت کا مرتکب اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ کردیا جائے اگرچہ وہ کافر نہ ہو لیکن امام المسلمین کا باغی اور اطاعت نہ قبول کرنے والا ہو۔ اگر وہ بغاوت اور سرکشی کا مظاہرہ نہ کرنے والا ہو تو امام المسلمین اسے حسب ضرورت تعزیری سزا دے گا یہی حکم ان تمام معاصی کا ہونا چاہیے جن پر اللہ تعالیٰ نے سزا کی دھمکی دی ہے جبکہ کوئی شخص ان پر اصرار کرے اور کھلم کھلا ان کا مرتکب ہو اور اگر وہ شخص سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے اور طاقت پکڑلے تو اس کے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف جنگ کی جائے گی یہاں تک کہ وہ سرکشی سے باز آجائیں اور ان کی طرف سے سرکشی اور بغاوت کا اظہار نہ ہو تو امام حسب ضرورت انہیں سزائیں دے گا۔ جگا ٹیکس لینا اور کسی کی جگہ پر قبضہ جمانا منع ہے یہی حکم ان لوگوں کا ہے جو مسلمانوں کے کسی علاقے پر زبردستی تسلط جماکر ظلم و ستم کا بازار گرم کردیں اور لوگوں سے ان کا مال چھیننا اور ٹیکس وصول کنا شروع کردیں۔ تمام مسلمانوں پر ان کے خلاف جنگ کرنا اور انہیں تہ تیغ کرنا واجب ہے اگر یہ سرکشی اور بغاوت پر کمر بستہ ہوں۔ ان لوگوں کا جرم سود خوروں کے جرم سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ ایسے لوگ بغاوت اور سرکشی سے نہی کی حرمت اور مسلمانوں کی جان و مال کی حرمت کی بےحرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ سود خور سود لے کر صرف اللہ کی حرمت کی بےحرمتی کا ارتکاب کرتا ہے اور سود دینے والے کی کسی حرمت کی بےحرمتی کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ سود دینے والا اپنی خوشی سے سود کی یہ رقم اس کے حوالے کرتا ہے۔ ٹیکس وصول کرنے والے دراصل ڈاکو اور لٹیرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نہی اور مسلمانوں کی بےحرمتی کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ایسے لوگ مسلمانوں سے جبر اور دبائو کے تحت ٹیکس وصول کرتے ہیں جن میں نہ تو کسی تاویل کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی کسی شبہ کی۔ اس لئے مسلمانوں میں سے جنھیں بھی ایسے لوگوں کے ظلم و ستم اور لوٹ کھسوٹ کی اطلاع ملے ان کے لئے ان لوگوں کو جس طرح بھی ہوسکے قتل کرنا جائز ہے نہ صرف انہیں بلکہ ان کے پیروکاروں اور مددگاروں کو بھی جن کے سہارے یہ لوگوں کا مال بطور ٹیکس وصول کرنے کی قدرت حاصل کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے مانعین زکوٰۃ سے اس لئے جنگ کی تھی کہ صحابہ کرام ؓ ان کے خلاف دو باتوں پر متفق ہوگئے تھے۔ ایک ان کے کفر پر اور دوسری ان کی زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار پر۔ وہ اس طرح کہ ان لوگوں نے زکوٰۃ کی فرضیت اور اس کی ادائیگی کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس بنا پر وہ دو جرموں کے مرتکب ہوگئے تھے ایک تو یہ کہ انہوں نے اللہ کے حکم کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ چیز کفر ہے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے امام المسلمین کو اپنے اموال میں واجب ہونے والے صدقات کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ان دونوں جرموں کی بنا پر ان سے قتال کیا۔ اور اسی بنا پر آپ نے فرمایا تھا کہ ” اگر یہ لوگ ایک رسی یا ایک روایت کے مطابق بکری کا ایک بچہ بھی دینے سے انکار کردیں جسے وہ حضور ﷺ کو بطور زکوٰۃ ادا کرتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے جنگ کروں گا۔ “ ہم نے جو یہ کہا کہ یہ لوگ کافر تھے اور زکوٰۃ کی فرضیت کو قبول کنے سے انکاری تھے۔ وہ اس لئے کہ صحابہ کرام ؓ نے انہیں اہل الردہ یعنی مرتدین کا نام دیا تھا۔ اور آج تک ان پر اسی نام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے جنگ کے بعد ان لوگوں کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرکے جنگی قیدی بنا لیا تھا اگر یہ لوگ مرتد نہ ہوتے تو حضرت ابوبکر ؓ کبھی بھی ان کے بارے میں حکمت عملی اختیار نہ کرتے۔ اس کے بارے میں صدر اول اور بعد کے مسلمانوں میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہوا یعنی اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہوا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے جن لوگوں سے قتال کیا تھا وہ مرتدین تھے۔ اگر سود خور سود کو حلال سمجھتے ہوئے اس پر ڈٹا رہتا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر وہ کسی گروہ کے سہارے طاقت پکڑ کر سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے تو امام المسلمین اس کے خلاف وہی حکمت عملی اختیار کرے گا جو وہ مرتدین کے خلاف اختیار کرتا ہے۔ اگر وہ اور اس کا گروہ اس سے پہلے ملت اسلامیہ کا جز بنے رہے ہوں۔ اگر ایسے لوگ سود کی حرمت پر ایمان رکھتے ہوں اور سود کو حلال نہ سمجھتے ہوئے سودخوری کی لعنت میں گرفتار ہوں تو اگر انہوں نے گروہ بندی کرکے طاقت حاصل کرلی ہو تو امام المسلمین ان کے خلاف جنگی کارروائیاں کرے گا حتیٰ کہ وہ توبہ کرلیں۔ اگر انہوں نے ابھی زور پکڑا نہ ہو تو امام المسلمین انہیں جسمانی سزا دے کر اور قید میں رکھ کر ان کی سرزنش کرے گا حتیٰ کہ وہ اس عادت قبیحہ سے باز آجائیں۔ حضور ﷺ سے یہ مروی ہے کہ آپ نے اہل نجران کو خط لکھا تھا، یہ لوگ عیسائی ذمی تھے۔ خط میں ان سے سودی لین دین ترک کرنے کو کہا گیا تھا بصورت دیگر اللہ اور رسول کی طرف سے ان کے خلاف جنگ کی دھمکی دی گئی تھی۔ ابو عبید القاسم ابن سلام نے کہا ہے کہ مجھے ایوب الدمشقی نے یہ روایت کی۔ انہیں سعد ان بن یحییٰ نے عبداللہ بن ابی حمید سے، انہوں نے ابو ملیح الہذلی سے کہ حضور ﷺ نے اہل نجران سے صلح کرنے کے بعد انھیں ایک خط لکھا تھا جس کے آخر میں یہ تھا کہ ” تم سود نہ کھائو، تم میں سے جو شخص سود کھائے گا میں اسی سے بری الذمہ ہوں گا۔ “ اس لئے اس ارشاد باری (یآیاھا الذین اٰمنوا التقوا اللہ وذروا ما بقیٓ من الربوٰ (a) کے بعد یہ قول باری (فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ) (a) ان دونوں باتوں کی طرف عائد ہے یعنی سود خوری کی لعنت کو پھر سے پہلی حالت کی طرف لوٹا دینا اور تحریم کا حکم قبول کرکے سود خوری پر قائم رہنا۔ اس لئے جو شخص لعنت کی پہلی حالت کی طرف لوٹائے گا اس کے خلاف ارتداد کی بنا پر جنگ کی جائے گی اور جو شخص سود کی حرمت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے گا تو وہ مرتد قرار نہیں دیا جائے گا لیکن اللہ کے حکم کی نافرمانی پر ڈٹے رہنے اور قوت پکڑنے کی بنا پر اس کے خلاف جنگی کارروائی کی جائے گی اور اگر اس نے طاقت نہ پکڑی ہو اور مقابلے پر نہ اترا ہو تو اسے گرفتار کرلیا جائے گا اور امام المسلمین اپنی صوابدید کے مطابق اسے پٹائی کی صورت میں یا قید میں ڈال کر تعزیری سزا دے گا۔ قول باری (فاذنوا بکرب من اللہ ورسولہ) (a) درحقیقت اس بات کا اعلان ہے کہ اگر لوگ اس آیت میں جاری کردہ حکم کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے والے شمار کئے جائیں گے۔ اس کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا یہ جرم کتنا عظیم اور سنگین ہے اور انہوں نے یہ جرم کرکے اپنے لئے ایک نشان منتخب کرلیا ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسرپیکار ہونے کانشان۔ اس نشان کے دو پہلو ہیں۔ ایک کفر کا پہلو، اگر یہ سود کو حلال سمجھتے ہوں اور دوسرا سود کی حرمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے سود خوری پر ڈٹے رہنے کا پہلو۔ جیسا کہ مہ اس کی تشریح پچھلے سطور میں کر آئے ہیں۔ بعض لوگوں نے آیت کو اس معنی پر محمول کیا ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ اس کے رسول اور مسلمانوں کو ان کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے اور یہ ایک طرح سے ان کے خلاف اعلان جنگ ہے تاکہ انہیں اس بات کے علم سے پہلے اچانک حملے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جس طرح کہ یہ قول باری ہے (واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ علیھم علی سوآء ان اللہ لایحب الخائنین۔ (a) اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو ، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا) اگر آیت کو اس معنی پر محمول کیا جائے تو خطاب کا رخ اس کی طرف ہوگا اگر وہ طاقت و قوت کے مالک ہوں گے اور اگر ہم آیت کو پہلے معنی پر محمول کریں گے تو ہر وہ شخص اس خطاب میں داخل ہوگا جو سود خوری کے فعل قبیح کا مرتکب ہوگا اور آیت میں مذکور حکم اسے شامل ہوگا۔ اس بنا پر پہلی تاویل اولیٰ ہے۔
Top